امریکہ کے محکمہ ٔ دفاع کا کہنا ہے کہ چین ایک ایسا بلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے جو1500 کلو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر طیارہ بردار جہازوں کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔ یہ پروگرام چین کے میزائل کے دفاعی نظام کے علاوہ ہے جو پہلے ہی کافی بڑا ہے۔ یہ نظام ایک ہزار سے زیادہ میزائلوں پر مشتمل ہے جن کا رُخ تائیوان کی طرف ہے جسے چین اپنا حصہ سمجھتا ہے ۔پینٹا گان کے مطابق، چین اپنا پہلا طیارہ بردار جہاز بھی تیار کر رہا ہے جس کے بعد چین ان چند ملکوں میں شامل ہو جائے گا جو بین الاقوامی سمندروں میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکتےہیں۔ اگرچہ چین کے سرکاری عہدے دار اپنے دفاعی منصوبوں کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتے، لیکن ایشیا میں سکیورٹی کے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ میزائل اور طیارہ بردار جہاز کے پروگراموں کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ تو تائیوان ہے جس میں 1949 سے الگ حکومت قائم رہی ہے ۔ یہ وہ سال تھا جب قوم پرست فوجیں خانہ جنگی میں شکست کھانے کے بعد، فرار ہو کر یہاں پہنچی تھیں۔چین نے دھمکی دی ہے کہ اگر تائیوان نے آزادی کا اعلان کیا تو وہ طاقت کے ذریعے اس پر کنٹرول حاصل کر لے گا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ حملے کی صورت میں وہ اس جزیرے کے دفاع میں مدد دے گا۔
Wu Xinboشنگھائی کی Fudan University میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آبنائے تائیوان میں فوجی تصادم کی صورت میں، امریکی طیارہ بردار جہاز کو اس علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے ، چین کو فوجی طاقت کی ضرورت ہے ۔چین طیارہ بردار جہاز اس لیے بنانا چاہتا ہے تا کہ وہ بین الاقوامی بحری راستوں کا دفاع کر سکے جو اس کے لیے بے حد اہم ہیں کیوں کہ اس کی معیشت کا انحصار بر آمدات پر ہے ۔
ڈینی روئے ہوائی کے ایسٹ ویسٹ سینٹر میں سینیئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس بات پر حیرت نہیں کہ چینی اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے دور مار بلسٹک میزائل تیار کر رہے ہیں۔’’چینیوں کے پاس کافی عرصے سے میزائلوں کی تیاری کی خصوصی مہارت موجود رہی ہے ۔ قدرتی طور پر وہ امریکہ کی طاقت کا توڑ کرنے کے لیے اس مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔چینیوں کے لیے طیارہ بردار جہاز شکن میزائل تیار کرنا، طیارہ بردار جہاز کے خلاف جنگی بیڑا تیار کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔‘‘
امریکہ اور بعض دوسرے ملکوں نے کہا ہے کہ چین کو طیارہ بردار جہاز یا نئے میزائلوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ فی الحال چین کے مفادات کو کسی طرف سے خطرہ نہیں ہے ۔ لیکن Wu کہتے ہیں کہ آج کل چین کی اقتصادی حالت اتنی اچھی ہے کہ وہ آسانی سے اس کام میں پیسہ لگا سکتا ہے ۔
جیمز نالٹ نیو یارک کے ورلڈ پالیسی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہیں اور 2007 سے Nanjing میں رہ رہے ہیں جہاں وہ نیو یارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے Nanjing کیمپس کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چین نے اپنا طیار بردار جہاز بنا بھی لیا تو بھی وہ امریکہ سے کئی عشرے پیچھے ہو گا۔
نالٹ کہتے ہیں’’ایک اعلیٰ معیار کا طیارہ بردار جہاز بنانے کے لیے انتہائی جدید ٹیکنالوجی، بہت زیادہ تربیت اور انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چین کو اس عمل میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اگر انھوں نے ایک طیارہ بردار جہاز بنا بھی لیا، تو وہ بالکل نا کافی ہو گا۔‘‘
لیکن جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں سمیت چین کے ہمسایوں نے جو جنوبی بحرِ چین میں درجنوں غیر آباد جزیروں کی ملکیت کے دعوے دار ہیں، چین کے فوجی طاقت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے ۔امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ چین کی فوجی طاقت کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ انھوں نے بار بار کہا ہے کہ چین کو اپنی فوجی صلاحیتوں اور عزائم کے بارے میں زیادہ تفصیلات منظرِ عام پر لانی چاہئیں۔ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے ڈینی روئے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ چین بعض باتیں خفیہ رکھنا چاہے کیوں کہ وہ خود کو نسبتاً کمزور طاقت سمجھتا ہے ۔’’فی الحال چین خود کو فوجی اعتبار سے امریکہ کے مقابلے میں بہت کمتر سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں، امریکہ کا یہ اصرار کہ چین اپنی فوجی تیاریوں کے بار ے میں تفصیلات بتائے، بالکل نا مناسب بات ہے کیوں کہ چین کے نقطۂ نظر سے تو انہیں امریکہ سے اپنی کمزوریاں چھپانی چاہئیں ۔‘‘
چین نے پینٹا گان کی تازہ ترین رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں چین کی عام دفاعی اور فوجی تیاریوں کے بیان میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے ۔پینٹا گان کی رپورٹ جاری کیے جانے کے کچھ دیر بعد، چین کے ایک ممتاز اخبار دی گلوبل ٹائمز میں ایک اداریہ شائع ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ چین کو طیارہ بردار شکن بلسٹک میزائل اور طیارہ بردار جہازوں کا مقابلے کرنے کے دوسرے انتظامات کرنے چاہیئِں۔اداریے میں کہا گیا ہے کہ چین کو بحر الکاہل میں امریکہ کی بحری قوت کا توڑ کرنے کے لیے قابلِ اعتماد انتظامات کرنے چاہئیں۔ اس کے ساتھ ہی، چین نے حالیہ مہینوں میں بار بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکی جہاز سمندر کے وسیع علاقوں سے دور رہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن میں بحرِ زرد اور چین کے مشرقی، اور جنوبی سمندر شامل ہیں جن پر چین اپنے اقتدارِ اعلیٰ کا دعویٰ کرتا ہے ۔