اسلام آباد —
امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران سے وہ بخوبی آگاہ ہے اور اس کے حل کے لیے وہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے یہ بات منگل کو تربیلا بجلی گھر کے دورہ کے موقع پر کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی معاونت سے اس بجلی گھر کی بحالی کے کام کی تکمیل کے بعد 128 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا جب کہ تربیلا میں عملے کو تربیت بھی فراہم کی گئی۔
سفیر اولسن نے بتایا کہ تربیلا ڈیم کے علاوہ پاکستان کے دوسرے بڑی آبی ذخیرے منگلا ڈیم میں بحالی کے کام کے علاوہ بجلی کی کئی دیگر پیداواری منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی معاونت سے جاری منصوبوں کے ذریعے 2013ء کے اختتام تک پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں 900 میگاواٹ اضافہ متوقع ہے جس سے 20 لاکھ صارفین مستفید ہو سکیں گے جو ان کے بقول پاکستان میں وسیع پیمانے پر بجلی کی کمی کے باعث پیدا ہونے والے مصائب پرقابو پانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
امریکی سفیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تعطل کے شکار پاک ایران گیس پائپ لائن مجوزہ منصوبے پر پیش رفت میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے۔
متنازع جوہری پروگرام کے باعث ایران کو امریکہ سمیت یورپی ملکوں کی طرف سے مختلف پابندیوں خاص طور پر تیل و گیس کے شعبہ میں بیرونی سرمایہ کاری پر تعزیرات کا سامنا ہے۔
امریکہ شروع ہی سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے جب کہ حال ہی میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ہونے والی پیش رفت پر اپنے ردعمل میں امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے سے گریز کرنا چاہیئے جو پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔
تاہم حالیہ برسوں میں شدید نوعیت اختیار کر جانے والے توانائی کے بحران کا شکار ملک پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اس مجوزہ منصوبے پر کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔
صدر آصف علی زرداری تو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے رواں ماہ کی 11 تاریخ کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ اپنے قومی مفاد میں کیا ہے کہ اور وہ اس پر قائم رہے گا۔
انھوں نے امریکی حکام کی طرف سے پابندیوں کی زد میں آنے والے انتباہی بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہمارا موقف یہ ہے کہ پاکستان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کوئی ایسا غلط اقدام نہیں اٹھایا جس سے وہ یو این کی پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔‘‘
سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 11 مارچ کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے آغاز کی تقریب ہو گی جس میں اعلیٰ ترین شخصیات شرکت کریں گی۔
اس میں صدر پاکستان، ایران کےصدر اور اس کے علاوہ اس خطے کے ممالک کے اہم شخصیات کو بھی بلایا جائے گا اور ہمیں امید ہے توقع ہے کہ جو لوگ جو قوتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں وہ جلد یہ سمجھ جائیں گے کہ پاکستان اس منصوبے پر اس لیے عمل درآمد کر رہا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔
ساڑھے سات ارب ڈالر کے پاک ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے سرمائے کی فراہمی ایک بڑا سوال ہے کیوں کہ امریکی تعزیرات سے بچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس مجوزہ پائپ لائن منصوبے کے لیے رقم فراہم کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔
اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے یہ بات منگل کو تربیلا بجلی گھر کے دورہ کے موقع پر کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی معاونت سے اس بجلی گھر کی بحالی کے کام کی تکمیل کے بعد 128 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا جب کہ تربیلا میں عملے کو تربیت بھی فراہم کی گئی۔
سفیر اولسن نے بتایا کہ تربیلا ڈیم کے علاوہ پاکستان کے دوسرے بڑی آبی ذخیرے منگلا ڈیم میں بحالی کے کام کے علاوہ بجلی کی کئی دیگر پیداواری منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی معاونت سے جاری منصوبوں کے ذریعے 2013ء کے اختتام تک پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں 900 میگاواٹ اضافہ متوقع ہے جس سے 20 لاکھ صارفین مستفید ہو سکیں گے جو ان کے بقول پاکستان میں وسیع پیمانے پر بجلی کی کمی کے باعث پیدا ہونے والے مصائب پرقابو پانے میں مددگار ثابت ہو گی۔
امریکی سفیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تعطل کے شکار پاک ایران گیس پائپ لائن مجوزہ منصوبے پر پیش رفت میں خاصی دلچسپی لے رہا ہے۔
متنازع جوہری پروگرام کے باعث ایران کو امریکہ سمیت یورپی ملکوں کی طرف سے مختلف پابندیوں خاص طور پر تیل و گیس کے شعبہ میں بیرونی سرمایہ کاری پر تعزیرات کا سامنا ہے۔
امریکہ شروع ہی سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا آیا ہے جب کہ حال ہی میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ہونے والی پیش رفت پر اپنے ردعمل میں امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی بھی ایسے منصوبے سے گریز کرنا چاہیئے جو پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔
تاہم حالیہ برسوں میں شدید نوعیت اختیار کر جانے والے توانائی کے بحران کا شکار ملک پاکستان یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اس مجوزہ منصوبے پر کسی بھی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔
صدر آصف علی زرداری تو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے رواں ماہ کی 11 تاریخ کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے یہ فیصلہ اپنے قومی مفاد میں کیا ہے کہ اور وہ اس پر قائم رہے گا۔
انھوں نے امریکی حکام کی طرف سے پابندیوں کی زد میں آنے والے انتباہی بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ہمارا موقف یہ ہے کہ پاکستان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کوئی ایسا غلط اقدام نہیں اٹھایا جس سے وہ یو این کی پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔‘‘
ہمارا موقف یہ ہے کہ پاکستان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کوئی ایسا غلط اقدام نہیں اٹھایا جس سے وہ یو این کی پابندیوں کی زد میں آتا ہو۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 11 مارچ کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے آغاز کی تقریب ہو گی جس میں اعلیٰ ترین شخصیات شرکت کریں گی۔
اس میں صدر پاکستان، ایران کےصدر اور اس کے علاوہ اس خطے کے ممالک کے اہم شخصیات کو بھی بلایا جائے گا اور ہمیں امید ہے توقع ہے کہ جو لوگ جو قوتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں وہ جلد یہ سمجھ جائیں گے کہ پاکستان اس منصوبے پر اس لیے عمل درآمد کر رہا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔
’’اس میں صدر پاکستان، ایران کےصدر اور اس کے علاوہ اس خطے کے ممالک کے اہم شخصیات کو بھی بلایا جائے گا اور ہمیں امید ہے توقع ہے کہ جو لوگ جو قوتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں وہ جلد یہ سمجھ جائیں گے کہ پاکستان اس منصوبے پر اس لیے عمل درآمد کر رہا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔‘‘
ساڑھے سات ارب ڈالر کے پاک ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے سرمائے کی فراہمی ایک بڑا سوال ہے کیوں کہ امریکی تعزیرات سے بچنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس مجوزہ پائپ لائن منصوبے کے لیے رقم فراہم کرنے سے گریزاں رہے ہیں۔