پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی مندوب مارک گراس مین کے اسلام آباد کے دورے سے قبل ان کی طرف سے یہ بات دوہرائی گئی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے باہمی مفادات ایک سے ہیں ۔ اس موقف کو بعض ماہرین پاکستان کی جانب امریکی رویے میں نرمی کی علامت قرار دے رہے ہیں ، لیکن ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی توجہ اب بھی ان شدت پسند عناصرکے خلاف کارروائی پر ہے ، جو افغانستان میں نیٹو اور امریکی فوج پر حملوں میں ملوث قرار دیئے جاتے ہیں اور جن کے پاکستانی اداروں سے رابطوں کے الزامات پچھلے ایک مہینے کے دوران کئی بار دوہرائے گئے ہیں ۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار زضا جان کہتے ہیں کہ گراس مین کے دورہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں زیر بحث رہیں گی ۔ پھر امریکہ اور پاکستان میں فوجی اور غیر فوجی تعاون، اور سفارتی تعلقات بھی وہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں جانچنے کے لئے امریکہ نے پاکستان کو کچھ اشارے بھی دیے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کا ان پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔
پاکستان کو تشویش ہے کہ دہشت گرد افغانستان میں اپنی پناہ گاہوں سے پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں ۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے کے تحت پاک افغان سرحد کے بعض قریبی علاقوں سے امریکی فوج ہٹا لی گئی ہے ، جس کے باعث بعض ماہرین کے مطابق وہاں پاکستان مخالف گروپوں کو اپنی پناہ گاہیں قائم کرنے کا موقع ملا ہے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ہی ایک اور تجزیہ کار احمد ماجد یار کا کہناہے کہ یقینا پاکستان کے خدشات اور مطالبات بالکل بجا ہیں کہ افغان حکومت اور نیٹو فوج ان علاقوں سے دہشت گردوں کی آمد ورفت روکیں۔ لیکن ساتھ ساتھ افغانستان اور نیٹو کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنی سرحد پر ان دہشت گرد عناصر کو روکے جو افغانستان کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ تو یہ ایک دو طرفہ معاملہ بنتا جا رہا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق ، اگرچہ امریکہ اور پاکستان دونوں ہی افغانستان کے استحکام میں اپنا باہمی مفاد دیکھنے کی بات کرتے ہیں ، اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں ،اور دونوں کے درمیان باہمی تعاون میں مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے ۔
پاکستان کےلیے سابق امریکہ سفیر ولیم بی مائلم کہتے ہیں کہ یہ تعللقات اسی لیے اب تک قائم ہیں کیونکہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے ۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کی حکمت عملی ایک دوسرے سے مختلف ہے اور دونوں ہی ابھی تک یہ نہیں سیکھ پائے کہ مختلف حکمت عملی رکھنے والے اتحادی کے ساتھ کیسے کام کرنا چاہیے۔
ماہرین بھارت کو خطے کی ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرتا دیکھنے کو پاکستان کی افغان حکمت عملی کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کے سابق سفیر کے مطابق پاکستان کےلیے امریکہ کے امدادی پروگراموں کا جاری رہنا بھی پاک امریکہ تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
لیکن امریکی کانگریس میں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ پاکستان کے اپنے قومی مفاد کے لئے شدت پسند گروہوں سے مبینہ رابطوں کی صورت میں امریکی امدادکا پروگرام جاری رکھنے سے کیا فائدہ ہو گا۔اور جب تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی ۔