امریکہ پاکستان پر مبینہ دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کیلئے دباؤ بڑھاتے ہوئے پاکستان کے رد عمل کو نرم رکھنے کی کوشش کر رہاہے۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ امداد روکنے پر ہی اکتفا نہیں کرے گا بلکہ ضرورت پڑنے پر مزید اقدامات بھی کرے گا۔
پاکستان افغانستان میں گزشتہ 16 برس سے جاری دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں امریکی فوجیوں کیلئے سپلائی کی گزرگاہ کے طور پر انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ پینٹاگون نے کہا ہے کہ فی الحال پاکستان نے کوئی ایسے اشارے نہیں دئے ہیں کہ وہ امریکی سپلائی کیلئے اپنی فضائی حدود اور زمین کے راستے بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اس بارے میں خدشات کو نظر انداز کر دیا ہے۔
لیکن امریکہ نے پاکستان کیلئے سیکورٹی تعاون کی مد میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی امداد روکنے کے سلسلے میں ابھی ابتدائی کارروائی کی ہے۔ یہ اقدام صدر ٹرمپ کی طرف سے یکم جنوری کو ایک ٹویٹ کے بعد اختیار کیا گیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ ماضی میں پاکستان کو دی جانے والی امداد کے جواب میں پاکستان نے صرف جھوٹ اور دھوکہ دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائیٹر کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک عہدایدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ امریکہ کو اُمید ہے کہ پاکستانی حکام کو امریکہ کی تشویش سے آگاہ کرنے کیلئے امداد کی بندش ہی کافی ہو گی۔ تاہم عہدیدار نے واضح کیا کہ امداد روکنا امریکہ کا واحد ہتھیار نہیں ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ مزید اقدام بھی اُٹھا سکتا ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ امریکہ مالی تعاون کے علاوہ بھی کئی چیزوں پر غور کر رہا ہے اور وہ پاکستان کے رد عمل کا بھی جائزہ لیتے ہوئے ایسے طریقوں پر سوچ بچار کر رہا ہے جن سے ہمارے دو طرفہ تعلقات زیادہ بگڑ نہ جائیں۔
عہدیدار نے امریکہ کی طرف سے متوقع مزید اقدامات کی تفصیل بتانے سے گریز کیا جن میں ممکنہ طور پر پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر یک طرفہ حملوں کا امکان بھی شامل ہے۔
امریکہ ایک عرصے سے پاکستان پر الزام عائد کر رہا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ کو طول دینے کیلئے حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گرد تنظیموں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے جو پاکستان میں اپنی صفوں کو از سرنو ترتیب دے کر افغانستان میں حملے کرتے ہیں۔ امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں موجود ایسی پناہ گاہوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
اُدھر امریکی وزیر دفاع جم پیٹس نے پینٹاگون میں رپورٹروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کیلئے سازو سامان کی ترسیل کیلئے پاکستان کے راستے استعمال کرنے کی امریکی استعداد کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان سے کوئی ایسے اشارے موصول نہیں ہوئے ہیں کہ وہ یہ راستے بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میٹس گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہے اور اگر ’’ہم نے محسوس کیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف خاطرہ خواہ اقدامات کئے ہیں تو ہم پاکستان کی امداد بحال کر دیں گے۔‘‘
فی الحال پاکستان کا رد عمل محض سخت الفاظ تک محدود ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکہ ایک ایسے دوست کی طرح برتاؤ کر رہا ہے جوہمیشہ دھوکہ دیتا ہے جبکہ حذب اختلاف کے لیڈر عمران خان کہتے ہیں کہ اب پاکستان کیلئے امریکہ سے ناطہ توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔