پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا چھٹا دور پیر کے روز واشنگٹن میں ہوا، جس میں امریکہ کی جانب سے وزیر خارجہ جان کیری جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ کے امور خارجہ کے مشیر، سرتاج عزیز نے کی۔
مذاکرات کے اختتام پر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، امریکہ میں پاکستان کے سفیر، جلیل عباس جیلانی نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں باہمی تعاون کے امور پر بات چیت ہوئی، جب کہ، بقول اُن کے، ’’مکالمہ اچھی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے‘‘۔
بقول سفیر، امریکی وزیر خارجہ نے آپریشن ضرب عضب، خصوصی طور پر شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کو سراہا۔
جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ مکالمے مین نیشنل ایکشن پلان کا حوالہ دیا گیا، جس کے تحت دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔
اس سے قبل، مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے چھ ورکنگ گروپ کی گذشتہ سال کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ اُنھوں نے کہا کہ ایف 16 طیاروں کی فراہمی سے پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے انسداد کے جاری آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملے گی، جب کہ یہ معاملہ مشترکہ مفاد کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
ساتھ ہی، سرتاج عزیز نے تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیا اور پاکستان مصنوعات کو امریکی منڈی تک رسائی کا مطالبہ کیا۔
اس سے قبل، اسٹریٹجک ڈائلاگ کے آغاز پر، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے کلمات میں شرمین عبید چنائے کی دستاویزی فلم، ’اے گرل اِن دا ریور‘ کو اس سال کا ’شارٹ فلم ڈاکیومینٹری‘ کا آسکر انعام جیتنے پر خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے باچہ خان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔
اسٹریٹجک ڈائلاگ میں پاکستانی وفد کی سربراہی، وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ، سرتاج عزیز بؤنے کی۔
کیری نے کہا کہ تشدد پسند پاکستان کے مستقبل کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ پاکستانی نوجوان سوچنے کے عمل میں آگے بڑھیں۔
جان کیری نے پاکستان امریکہ تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف تعاون کو دونوں ملکوں کی سلامتی اور تحفظ کے لئے اہم قرار دیا اور کہا کہ امریکہ پاکستانی فوج کی ان قربانیوں کو تسلیم کرتا ہے جو انہوں نے ’آپریشن ضرب عضب‘ اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے فوجی آپریشن کے نتیجے میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لئے 25 کروڑ ڈالر کی رقم فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے، ’’اور ہم انسداد دہشت گردی کی حکمتِ عملی میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے‘‘۔
جان کیری نے پاکستانی حکومت کے ’نیشنل ایکشن پلان‘ کو سراہا، جس سے، بقول اُن کے، ’’جنگجوؤں کی نئی بھرتیاں اور ان کے لئے سرمایہ اکٹھا کرنے کی صلاحیت پر ضرب پڑی ہے‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے اس عزم کا بھی خیرمقدم کیا کہ دہشت گرد گروہوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’’حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروہ پڑوسی ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو متاثر کرتے ہیں، اور پاکستانی قوم کی خود مختاری اور مستقبل کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘‘۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ اور ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لئے مشترکہ تشویش کی بات ہے اور اس توقع کا اظہار کیا کہ ’’آنے والے سالوں کے دوران دونوں ملک ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ذمہ دار ملکوں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں پر بات کریں گے‘‘۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کہ امریکہ کے 50000 ایٹمی ہتھیار تھے جن کا رخ سویت یونین کی جانب تھا اور سویت یونین کے 50000 ایٹمی ہتھیاروں کا رخ امریکہ کی طرف تھا۔ لیکن، اب ہم اُس وقت سے بہت آگے آچکے ہیں۔ آج امریکہ اور روس کے پاس ایک معاہدے کے تحت 1500 ایٹمی ہتھیار ہیں اور انہیں مزید محدود کرنے پر غور جاری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کے بقول، پاکستان کے لئے بھی اہم ہے کہ اس حقیقت کو سمجھے اور اس معاملے کو اپنی پالیسی کا حصہ بنائے۔
جان کیری نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم نواز شریف 21 مارچ سے واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا مقصد تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، توانائی، قانون کے نفاذ اور علاقائی استحکام سمیت ہر شعبے میں تعاون آگے بڑھانا اور مضبوط کرنا ہے۔ اس ضمن میں، امریکہ اور پاکستان کے ورکنگ گروپ اگلے پانچ سالوں میں پاکستانی مارکیٹ کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش بنانے اور پاکستان کی افرادی قوت میں خواتین کا حصہ بڑھانے پر بات کر رہے ہیں۔
پاکستانی وفد میں مشیرِ خارجہ کے علاوہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقیات اور اصلاحات، احسن اقبال شامل ہیں۔