امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومیپو کے بیان پر کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں سے ’’برا سلوک‘‘ روا رکھا جاتا ہے، امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پس آئینہ مسئلہ کوئی اور ہے، اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اس لئے دونوں کو تحمل سے کام لینا ہوگا۔
اُدھر پاکستانی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ ناروا سلوک کے بارے میں امریکہ کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے ایسے بیان کے بعد کیا کسی بڑی زور آزمائی کی توقع رکھنی چاہئیے۔ اس سوال کے جواب میں جنوبی ایشیا کیلئے امریکہ کی سابق معاون وزیر خارجہ روبِن رافیل کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ تو کوئی اور ہے۔
روبن کہتی ہیں کہ ’’امریکہ کو شکایت ہے کہ پاکستان افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی حمایت جار ی رکھے ہوئے ہے‘‘، جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف اس کی کاروائیوں کی ’’پزیرائی نہیں ہوئی‘‘، جس سے دونوں کی مایوسی میں اضافہ ہوتا ہے ۔
روبن رافیل کہتی ہیں کہ ’’حقیقت میں یہ ہراساں کئے جانے کے بارے میں نہیں ہے، یہ تو کسی درپردہ مسئلے کے بارے میں ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ دونوں فریق اس کے حل پر توجہ مرکوز رکھیں گے، نہ کہ اس کا رد عمل سفارتی عملے پر نکالیں گے‘‘۔
امریکی تھنک ٹینک، ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ میں قائم ’پاکستان سینٹر‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائین بوم کہتے ہیں کہ ’’امریکہ کو افغانستان تک رسائی کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے، اس لئے معاملہ اُس حد تک نہیں جاسکتا‘‘۔
ڈاکٹر مارون کہتے ہیں کہ ’’نہیں، میرے خیال میں اتنا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کہ زور آزمائی تک بات نہیں جا سکتی۔ سو، میرے خیال میں، ہم اسکے کہیں قریب بھی نہیں ہیں، اور نہ ہی کوئی فریق اسکا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔‘‘
مگر کیا کھلے عام اس طرح کے بیانات سے پہلے سے تناؤ کا شکار تعلقات مزید خراب نہیں ہونگے؟ اس کے جواب میں روبن رافیل کہتی ہیں کہ ’’یہ سطحی طور پر تو یقیناً ہے، کیونکہ اس سے ایک بوجھ بڑھتا ہے۔ دونوں فریقوں پر تنظیمی اور حکمت عملی کے بوجھ کے حوالے سے۔ اور اس سے تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن اس سے در پردہ مسئلہ اپنی جگہ موجود رہتا ہے، تو اس سے دونوں فریقوں کو اس درپردہ مسئلے سے پیدا ہونے والے تناؤ کو دور کرنے پر توجو مرکوز رکھنی ہوگی اور وہ مسئلہ افغانستان سے متعلق ہے۔‘‘
اسی بارے میں ڈاکٹر مارون کہتے ہیں کہ ’’یہ یقیناً بہت افسوسناک ہوگا کیونکہ یہ بہت دور تک جا سکتا ہے، اور پیشتر اس کے کہ بات یہاں تک پہنچ کر اپنےاثرات مرتب کرے، جس کا بعد میں دونوں کو بہت افسوس ہوگا۔‘‘
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے واضح کیا ہے کہ سفارت کاروں سے مبینہ ناروا سلوک کے بارے میں امریکہ کی طرف سے وزارتِ خارجہ کو ابھی تک کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔