کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس جسے مختصراً سی پی اے سی کہتے ہیں ملک بھر کے قدامت پسندوں کا سالانہ اجتماع ہوتاہے ۔ ان لوگوں کے لیئے جو 2012 میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں، یہ ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر مِٹ رومنی ایک بار پھر 2012 میں صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
2008 میں ریپبلیکن پارٹی نے جان مکین کو نامزد کر دیا تھا۔ سی پی اے سی میں بیشتر مقرروں کی طرح، انھوں نے بھی صدر براک اوباما کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔’’آج کی پریشانی ہے صحیح معنوں میں بے روزگاری ، گھروں کی قرقی ، اور دیوالیہ ہونا۔ یہ اوباما کی دی ہوئی پریشانی کا انڈیکس ہے ۔ امریکیوں کو واپس کام پر لگانے کے لیئے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنا پڑے گا۔ اس کے لیئے نئے صدر کی ضرورت ہو گی۔‘‘
اس سال ریپبلیکن امیدواروں میں ایک حیران کن اضافہ ہو سکتا ہے ۔ جائیدادوں کے ارب پتی مالک ڈونلڈ ٹرمپ نے کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ جون تک کر لیں گے۔’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اس بارے میں کیوں سوچ رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ باقی دنیا ہر طرف سے امریکہ پر حملے کر رہی ہے۔ دنیا کی نظر میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ ان کا سلوک اچھا نہیں ہے۔‘‘
سی پی اے سی کے کنونشن سے ایسے ریپبلیکنز کو بھی جو زیادہ معروف نہیں ہیں، اور جو وائٹ ہاؤس کے لیئے قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، کنونشن میں آئے ہوئے ہزاروں کارکنوں سے اپنا تعارف کرانے کا موقع ملتا ہے ۔ ریاست منی سوٹا کی خاتون رکن کانگریس، مائیکل باچمان ٹی پارٹی تحریک میں بہت مقبول ہیں ۔ یہ تحریک قدامت پسند عوامی گروپوں کا ڈھیلا ڈھالا مجموعہ ہے جو وفاقی حکومت کے سائز کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔ باچمان نے ہجوم سے کہا کہ صدر اوباما کو شکست دینا ، اگلے سال قدامت پسندوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے ۔ ہمارے لیئے اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم براک اوباما کو ایک مدت کا صدر بنائیں۔
باچمان کو انتخاب لڑنے کے لیئے آمادہ کیا جا سکتا تھا، اگر ریاست الاسکا کی سابق گورنر سارا پیلن جو ٹی پارٹی میں مقبول ہیں، یہ طے کر لیں کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں لیں گی۔ پیلن اور ایک اور ممکنہ امید وار، ریاست آرکنساس کے سابق گورنر، مائیکل ہکابی ، سی پی اے سی کی کانفرنس میں نہیں آئے تھے ۔
اگرچہ 2012 کے انتخاب میں ممکنہ ریپبلیکن امید واروں پر توجہ میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر کوئی بات واضح نہیں ہے ۔ واشنگٹن میں مقیم تجزیہ کار، روڈز کک کہتے ہیں کہ ابھی کوئی صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2008 کے برعکس، یہ انتخابی مہم دیر سے شروع ہو رہی ہے ۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں میں گورنر مِٹ رومنی باقی لوگوں سے آگے ہیں، اگرچہ سب ریپبلییکن امیدوار ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔ لیکن روڈز کک سمیت بیشتر ماہرین کہتے ہیں کہ ریپبلیکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیئے میدان ابھی بالکل کھلا ہے ۔’’ریپبلیکنز کے درمیان مقابلے میں جو چیز بالکل نمایاں ہے وہ یہ ہے کوئی چیز واضح نہیں ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی واضح جانشین نہیں ہے۔ ماضی کے انتخابات میں ہوتا یہ رہا ہے کہ ایک امیدوار پر اتفاق ہوتا تھا جو مقابلے کے لیئے تیار ہوتا تھا۔‘‘
صدارت کے بہت سے ریپبلیکن امید وار سابق صدر رونلڈ ریگن کی یاد دلاتے ہیں جو آج بھی امریکہ کی قدامت پسند تحریک کے ہیرو ہیں۔ لیکن تجزیہ کار چارلس کُک کہتے ہیں کہ 2012 کے ممکنہ ریپبلیکن امیدواروں میں اب تک ان جیسی کوئی قد آور شخصیت سامنے نہیں آئی ہے ۔
توقع ہے کہ اگلے چند مہینوں کے دوران کئی ریپبلیکنز وائٹ ہاؤس کے لیئے اپنے ارادوں کا اعلان کریں گے ، اور اس سال کے آخر میں امیدواروں کے درمیان مباحثے شروع ہوں گے۔