امریکہ کے فوجی حکام نے کانگریس کو مطلع کیا ہے کہ انھوں نے کیوبا میں گوانتانامو کے حراستی مرکز سے تقریباً ایک درجن افراد افراد کو منتقل کرنے کا بتایا ہے۔
ذرائع ابلاغ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے بتایا کہ کم ازکم دو ملکوں نے ان افراد کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
منتقل کیے جانے والوں میں ایک یمنی شہری 37 سالہ طارق باعودہ بھی شامل ہے جو کہ 2007ء سے بھوک ہڑتال پر تھا اور اسے زبردستی خوراک دی جاتی رہی ہے۔ اس کا وزن اب صرف 33 کلوگرام ہے جو کہ اس کے اصل وزن سے تقریباً نصف ہے۔
طارق گوانتانامو میں زیر حراست رہ جانے والے 91 افراد میں تھا۔
یہ حراستی مرکز سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں قائم کیا گیا جس میں امریکی زیر قیادت اتحاد کی طرف سے افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پکڑے جانے والے مشتبہ دہشت گردوں کو تحویل میں رکھا جاتا تھا۔
ان افراد میں سے 37 کو کسی تیسرے ملک میں منتقل کیے جانے کی منظوری دی جا چکی ہے اور طارق بھی ان میں شامل ہے۔
منتقلی کا پہلا مرحلہ آئندہ چند روز میں شروع شروع ہوسکتا ہے اور باقی ماندہ کو آنے والے ہفتوں میں منتقل کیا جاسکت اہے۔
گوانتانامو کا یہ حراستی مرکز امریکہ سمیت دیگر ملکوں طرح سے یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے کہ یہاں مشتبہ لوگوں کو بغیر مقدمات چلائے غیر معینہ مدت تک رکھ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
صدر براک اوباما نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اعلان کیا تھا کہ وہ اس حراستی مرکز کو بند کر دیں گے لیکن ان کی کوششوں کو کانگریس کی طرف سے مخالفت کا سامنا رہا ہے۔
صدر نے اس ضمن میں کانگریس کو ایک منصوبہ بھی پیش کر رکھا ہے جس میں زیر حراست متعدد افراد کو امریکہ کی انتہائی سکیورٹی والی جیلوں میں منتقل کرنا بھی شامل ہے، لیکن کانگریس نے ایسی کسی منتقلی پر پابندی عائد کر دی تھی۔