صدارتی انتخابات: ریاست مشی گن میں مسلمانوں کے ووٹ کتنے اہم؟
امریکی ریاست مشی گن میں عرب سمیت دنیا کے مختلف خطوں سے آئے مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ یہاں رجسٹرڈ مسلمان ووٹرز کی تعداد 270,000 ہے۔ لیکن تین نومبر کو ہونے والے انتخاب کے حوالے سے مسلمان ووٹرز کی ترجیحات بھی یکساں نہیں۔
اگر امریکہ کی مجموعی آبادی کو دیکھا جائے تو مسلمان امریکی اس کا محض ایک فی صد حصہ ہیں۔ لیکن ریاست مشی گن میں ان کا خاصا اثرورسوخ ہے۔
گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ریاست میں 45 لاکھ ڈالے گئے ووٹوں میں سے دس ہزار کے فرق سے یہاں کامیابی حاصل کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ریاست کے رہائشی ڈاکٹر محمود الحدیدی نے کہا کہ ان کے لیے اس انتخاب میں ووٹ ڈالتے وقت جو بات سب سے مقدم ہو گی وہ ہے احترام۔ وہ کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں ایمان دارانہ سوچ، احترام اور مسلمانوں کے کردار کا اعتراف بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
امریکی انتخابات کے نتائج میں تاخیر کے خدشات کیوں؟
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر کے خدشات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے امریکی ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈال رہی ہے۔ 'میل اِن بیلٹس' کا طریقۂ کار انتخابی نتائج کے جلد اعلان کی راہ میں رکاوٹ کیسے ہے؟ جانیے اس ایکسپلینر میں۔
امریکی الیکشن: اگر کوئی بھی امیدوار واضح جیت حاصل نہیں کرتا تو کیا ہو گا؟
تین نومبر کو ہونے والا صدارتی انتخاب گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں غیر معمولی حالات میں منعقد ہو رہا ہے جس کی بنا پر سیاسی تجزیہ کاراور ماہرین نتائج کے حوالے سے مختلف صورت احوال کے متعلق اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔
خاص طور پر یہ بات کی جا رہی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن میں سے کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہیں کر پاتا تو اس سلسلے میں قانونی اور آئینی تقاضے کیا کہتے ہیں۔ اور یہ کہ ایسی صورت میں قانونی چارہ جوئی اگر جنوری تک کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچتی تو کیا ہو گا کیونکہ جنوری میں کانگریس انتخابات کے نتائج کی توثیق کرتی ہے۔
2020 کے الیکشن میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی خاطر ووٹروں کی ایک بڑی تعداد الیکشن کے دن سے پہلے ڈاک کے ذریعہ ووٹ ڈال رہی ہے۔
الیکشن کے دن سے پہلے کی ووٹنگ کو ارلی ووٹنگ کہا جاتا ہے۔ لیکن مختلف امریکی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کے مختلف انداز اور طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں، جس کی بنا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ بعض مقامات پر ووٹوں کی گنتی میں کئی دن اور کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
اس تناظر میں سیاسیات کے بروکنگز انسٹی ٹیوٹشن سے وابستہ ماہر ولیم گالسٹن کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہیں کرتا تو ایک بھیانک منظر بنے گا جس میں انتخابات کے نتائج پر شکوک و شبہات ہوں گے اور ملک پہلے ہی سے موجود مشکل حالات میں ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے۔
ڈیموکریٹک اور ری پبلکن جماعتیں کیسے بدل گئیں؟
قدامت پسند نظریات کی حامل سمجھی جانے والی ری پبلکن پارٹی وہ جماعت ہے جس سے تعلق رکھنے والے صدر ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کیا تھا۔ اس وقت یہ جماعت آزاد خیال تھی اور سفید فام نسل پرستی کے حامی ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ کھڑے تھے۔ وقت کے ساتھ دونوں جماعتوں کے نظریات تبدیل ہوئے تو ان کے زیرِ اثر حلقوں میں بھی تبدیلی آئی۔ امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے نظریات اور حامیوں میں آنے والی اس تبدیلی کے بارے میں جانیے ہمارے اس ایکسپلینر میں۔