ٹرمپ کی مہم کا 'ہار نہ ماننے' کا اعلان، ری پبلکن سینیٹرز کی بھی نتائج پر تنقید
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم نے صدارتی انتخاب کے نتائج پر سوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ "انتخابات ابھی ختم نہیں ہوئے۔"
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی جانب سے جمعے کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں ووٹوں کا فرق بہت کم ہے، وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر صدر ٹرمپ ہی جیتیں گے۔
صدر ٹرمپ نے بھی انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق اپنے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف اپنی مزاحمت کبھی ترک نہیں کریں گے۔
جمعے کی سہ پہر جاری ایک بیان میں صدر نے کہا کہ ان کا مؤقف اور جدوجہد امریکہ کے پورے انتخابی نظام کی ساکھ بچانے کے لیے ہے جس سے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
صدر ٹرمپ کے قریب سمجھے جانے والے کئی ری پبلکن سینیٹرز نے بھی ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد جو بائیڈن کی برتری میں اضافے پر سوال اٹھائے ہیں اور انتخابات میں دھاندلی سے متعلق صدر کے الزامات کی تائید کی ہے۔
انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھانے والوں میں آرکنسا کے سینیٹر ٹم کاٹن، ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز اور ساؤتھ کیرولائنا سے منتخب سینیٹر لنزی گراہم سرِ فہرست ہیں۔
تاہم اب تک صدر یا ان کے حامیوں کی جانب سے کسی دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
نتائج میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
امریکہ میں اس بار کرونا کی وبا کی وجہ سے 10 کروڑ کے لگ بھگ رائے دہندگان نے 'ارلی ووٹنگ' میں حصہ لیا اور تین نومبر کو الیکشن ڈے سے قبل ہی ووٹ ڈالا۔
ارلی ووٹنگ میں حصہ لینے والے ووٹرز نے بیشتر ووٹ ڈاک کے ذریعے ڈالے جن کی تصدیق اور گنتی میں زیادہ وقت لگتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان چھ ریاستوں میں اب تک ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے آخری مرحلے میں ریاست پینسلوینیا، جارجیا، ایریزونا، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا اور الاسکا میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔
اس وقت الاسکا اور نارتھ کیرولائنا میں ٹرمپ آگے اور بائیڈن پیچھے ہیں جب کہ دیگر چار ریاستوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔
جن ریاستوں میں بائیڈن کو برتری حاصل ہے وہاں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹ زیادہ تر ان شہروں اور مضافاتی علاقوں کے ہیں جو روایتی طور پر ڈیموکریٹس کے زیرِ اثر ہیں۔
ان چاروں ریاستوں کے انتخابی قوانین کے تحت حکام پابند تھے کہ وہ ڈاک کے ذریعے موصول ہونے والے ووٹ الیکشن کے دن ڈالے جانے والے ووٹوں کے بعد گنیں گے۔
ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ نسبتاً مشکل
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ نسبتاً مشکل اور اگر مگر سے بھرپور ہے۔ اس وقت جن چھ ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں ان میں سے صرف نارتھ کیرولائنا اور الاسکا میں صدر ٹرمپ کو اپنے ڈیموکریٹ حریف پر سبقت حاصل ہے۔
صدر ٹرمپ نے اب تک 214 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں اور صدر بننے کے لیے اُنہیں مزید 56 ووٹ درکار ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے انہیں الاسکا اور نارتھ کیرولائنا (جہاں انہیں بائیڈن پر سبقت حاصل ہے) کے ساتھ ساتھ پینسلوینیا، جارجیا، ایریزونا اور نیواڈا میں سے کم از کم تین ریاستوں میں بھی کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔
لیکن جیسے جیسے ان ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں کی گنتی جاری ہے، جو بائیڈن کی برتری میں اضافہ ہو رہا ہے اور صدر ٹرمپ کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔
گو کہ ان چاروں ریاستوں میں جو بائیڈن کی برتری معمولی ہے اور اب بھی ووٹوں کی گنتی جاری ہے، لیکن بظاہر جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے امکانات صدر ٹرمپ سے کہیں زیادہ ہیں۔
انتخابی حکام کے مطابق اس بار صدارتی انتخاب میں 15 کروڑ ووٹ ڈالے گئے جو امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی انتخاب میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی ایک ریکارڈ تعداد ہے۔
ان میں سے جو بائیڈن اب تک لگ بھگ سات کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرچکے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کے پاپولر ووٹوں کی تعداد سات کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
چھ ریاستوں کے نتائج باقی، بائیڈن کو چار میں سبقت حاصل
امریکہ میں منگل کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں باقی ماندہ ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی بدستور جاری ہے اور چھ میں سے چار ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر جو بائیڈن کی برتری میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔
جو بائیڈن کو اس وقت 253 الیکٹورل ووٹ حاصل ہو چکے ہیں اور وہ مطلوبہ ہدف سے صرف 17 ووٹ دور ہیں۔
پینسلوینیا کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 20 ہے اور اگر جو بائیڈن صرف یہی ایک ریاست جیت جاتے ہیں تو وہ بآسانی امریکہ کے 46 ویں صدر منتخب ہوجائیں گے۔
جارجیا کے 16، ایریزونا کے 11 اور نیواڈا کے 6 الیکٹورل ووٹ ہیں اور اگر جو بائیڈن ووٹوں کی گنتی کے اختتام تک ان ریاستوں میں بھی اپنی برتری قائم رکھنے میں کامیاب رہے تو الیکٹورل کالج میں ان کی برتری 306 تک پہنچ جائے گی۔
بائیڈن اگر پینسلوینیا سے نہیں بھی جیت پاتے تو بھی جارجیا، ایریزونا اور نیواڈا میں سے کوئی بھی دو ریاستوں میں کامیابی کی صورت میں بھی وہ بآسانی صدر بننے کے لیے درکار 270 الیکٹورل ووٹ کا ہدف حاصل کرلیں گے۔