امریکی عہدہٴ صدارت کی چند طے آزمودہ راہیں ہیں۔ ہیلری کلنٹن اِن میں سے ایک پر پوری اترتی ہیں جب کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
ٹرمپ نہ تو کبھی نائب صدر رہے، نہی امریکی سینیٹ یا ایوانِ نمائندگان کے نمائندے منتخب ہوئے ناہی امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے کسی ایک کے گورنر رہے ہیں۔ 43 شخصیات جو صدارت کے عہدے پر فائز رہ چکی ہیں، اُن میں سے 37 نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کم از کم ایک عہدے پر فرائض انجام دیے تھے۔
جو باقی چھ صدور تھے اُن کے کوائف میں اِن میں سے کسی بھی اہم عہدے کا تجربہ شامل نہیں تھا، تاہم، جارج واشنگٹن یا ڈوائٹ آئزن ہاور نامور غازی تھے؛ جب کہ ولیم ٹفٹ یا ہربرٹ ہوور رُکنِ کابینہ رہ چکے تھے جنھوں نے کامیاب انتخابی مہم چلائی۔ ٹرمپ یا کلنٹن فوج میں بھی نہیں رہے۔
جولائی میں باضابطہ طور پر ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار منتخب ہونے پر، ٹرمپ پارٹی کے متواتر دوسرے نمائندے ہوں گے جِن کا تعلق کاروبار سے ہے۔ مِٹ رومنی سنہ 2012 میں امیدوار تھے جو صدر براک اوباما سے ہار گئے تھے۔ لیکن، ایک کاروباری شخص ہونے کے علاوہ، اُنھوں نے میساچیوسٹس کے گورنر کے طور پر فرائض انجام دیے تھے۔
جہاں تک کلنٹن کا تعلق ہے، وہ اہم عوامی عہدے پر فائز رہی ہین اور کابینہ کی رُکن رہ چکی ہیں۔ سینیٹ کے رُکن کے طور پر اُنھوں نے نیویارک کی نمائندگی کی جس کے بعد اوباما کے پہلے دورہٴ صدارت میں وہ وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ صدر بننے سے قبل اوباما بھی سینیٹر رہ چکے تھے، جیسا کہ کلنٹن کی ڈیموکریٹ پارٹی کے مدمقابل، برنی سینڈرز ہیں۔
ملک کے اوائلی دِنوں کے دوران، پہلے آٹھ صدور وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ اُس کے بعد، صرف جیمز بکانن وزیر خارجہ رہے تھے۔ وہ سنہ 1856 میں منتخب ہوئے تھے۔ اور جب سنہ 2008 میں اوباما منتخب ہوئے، آخری صدر جو رکنِ کانگریس رہ چکے تھے، لیکن کبھی نہ نائب صدر تھے نا ہی گورنر، وہ تھے جان ایف کنیڈی جنھوں نے سنہ 1961 میں عہدہ سنبھالا۔
کلنٹن کے لیے جو تاریخی فوقیت ہے وہ یہ کہ وہ ایک وکیل ہیں۔ امریکہ کے تقریباً نصف صدور وکیل رہ چکے تھے، جن میں اوباما بھی شامل ہیں۔
تاہم، تاریخ کلنٹن پر اتنی مہربان نہیں ہے جتنی کہ ٹرمپ پر ہے۔ وہ ماضی کے تمام صدور کی طرح ایک مرد ہیں۔ امیدوار بننے کی صورت میں وہ پہلی خاتون ہوں گی جنھیں ایک اہم پارٹی کی جانب سے صدارتی ٹکٹ ملے گا۔ اس بات کا فیصلہ پارٹی کے جولائی کے کنوینشن میں ہوگا۔
نامزدگی کی مہم کے دوران، ٹرمپ نے امیدوار بننے کی مہم کے دوران چندے کے لیے باہر کے لوگوں پر انحصار کرنے کی جگہ اپنا پیسہ خرچ کیا۔ بدھ کو ایک انٹرویو میں شامل کلمات کے مطابق، صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ اپنی ہی دولت لگائیں گے، جس سے وہ مزید مختلف لگیں گے۔
اُنھوں نے ’اے بی سی‘ کے ’جِمی کِمل لائیو‘ پروگرام میں بتایا کہ بجائے سالانہ 400،000 ڈالر کی تنخواہ لینے کے، جو صدور کے لیے مختص ہوا کرتی ہے، وہ صرف ایک ڈالر معاوضہ لیں گے، اور یوں وہ تاریخ کے سب سے کم معاوضہ لینے والے صدر ہوں گے۔
لیکن، جیسا کہ تمام سابقہ صدور اس بات کی تصدیق کریں گے کہ منتخب ہونے پر انتخابی مہم کے دوران دیے گئے بیانات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ امریکی آئین کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ صدر کا معاوضہ ’’نہ تو بڑھایا جاسکتا ہے ناہی کم کیا جاسکتا ہے، جس میعاد کے لیے وہ منتخب ہوتے ہیں’’، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے لیے کانگریس کی قانون سازی کی ضرورت پڑے گی، اور صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے، تنخواہ میں کمی کے کسی معاملے پر اوباما کے دستخط درکار ہوں گے۔