رسائی کے لنکس

لیبیا ایک معتدل اسلامی ریاست ہوگا: علی سلابی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لیبیا کے ایک قذافی مخالف راہنما علی سلابی کے بارے میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک 47سالہ سلابی کو مغرب میں کوئی نہیں جانتا تھا، اور نا ہی کسی کو اُن کی پرواہ تھی۔

وہ قطر اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد قذافی مخالف تحریک میں حصہ لینے کے لیے لیبیا واپس آئے تھے اور اب ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نئی حکومت ترتیب دینے میں اُن کا اہم کردار ہوگا۔

گوکہ اپنے ملک میں ان کا گرمجوشی کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا، لیکن مغربی حکومتیں اُن کی شہرت سےپریشان نظر آتی ہیں، کیونکہ وہ جمہوری نظامِ حکومت میں مذہب کا زیادہ عمل دخل دیکھنا چاہتے ہیں۔

سلابی کو 17سال کی عمر میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا، کیونکہ وہ نا صرف خود بلاناغہ مسجد جاتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔

اُنھوں نے آٹھ سال لیبیا کی جیلوں میں گزارے لیکن سلابی کہتے ہیں کہ اُس سے اُن کے علم میں اضافہ ہوا، کیونکہ جیل ایک یونیورسٹی کی طرح تھی جہاں سنی، شیعہ، آزاد خیال، رجعت پسند اور کمیونسٹ سب موجود تھے۔ اور اُنھوں نے جیل میں یہ بات سیکھی کہ کسی دوسرے پر اپنا نظریہ نافذ نہیں کرنا چاہیئے۔

جیل میں ہی اُنھوں نے جیفرسن کو پڑھا اور امریکی جمہوریت کی قدر کرنے لگے۔

سلابی کا کہنا ہے کہ لیبیا کے تمام مذہبی، سیاسی گروہ معتدل اسلام کے حامی ہیں، جس میں تمام نظریوں کی جگہ موجود ہے۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ وہ لیبیا میں جمہوریت کو امریکہ کی سطح تک جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں براک اوباما کی طرح ایک عام آدمی، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی قوم سے ہو، صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لیبیا ایک معتدل اسلامی ریاست ہوگا، نہ کہ ایران اور سعودی عرب کی طرح سخت گیر۔

XS
SM
MD
LG