’ لاس انجلس ٹائمز‘ نےایک ادرائے میں صدراوباما کےگُوگل اور یُوٹیوب کی وساطت سےدئے گئے اُس انٹرویو پر تبصرہ کیا ہے جس میں اُنہوں نے پاکستان میں القاعدہ اوردوسرے عسکریت پسندوں پر ڈرون حملوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ ان حملوں کے اعلانیہ اعتراف سے اب انتظامیہ پریہ دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ اس پالیسی کا دفاع بھی پبلک میں کرے۔
انتظامیہ کے ایک عہدہ دار نے سی این این کو بتایا کہ صدر کی زبان سے یہ باتیں غلطی سے نہیں نکلی تھیں، جب کہ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان نے ڈرون پروگرام پر کُچھ کہنے سے احتراز کیا ہے اور مبیّنہ طور پر ان خفیہ پروگراموں کے بارے میں تبصرہ کرنے سے احتراز کیا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ڈرون طیاروں اور اُن کے عمومی اہداف، دونوں حقائق کُچھ عرصے سے ایک طرح کے کُھلے راز تھے۔اور مسٹر اوباما کے اعتراف سے قبل انتظامیہ مستقل مزاجی کے ساتھ ان کی تصدیق کرنے سے احتراز کرتی آئی ہےجس کی بیشتر وجہ حکومت پاکستان کا لحاظ تھا، جسے شکایت رہی ہے کہ ڈرون طیاروں کے حملے اُس کی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ اس کے باوجود ان ڈرون طیاروں کےحملے زبان زدِ خلائق عام تھے۔ اور اس بارے میں اتنظامیہ کی خموشی پاکستان میں بھی اتنی ہی ناقابل ِفہم تھی جتنی کہ امریکہ میں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما اب اس پر جو کُچھ کہہ چکے ہیں اس کے پیش نظرانتظامیہ کے لئے کانگریس کے ساتھ ڈرون حملوں کی افادیت اور اس کے اخلاقی جواز پرکھلم کھلا بات کرنے سے احتراز کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہاں زور کھلم کھلا پر ہے۔ظاہر ہے کہ انتظامیہ ان حملوں، ان کے اہداف اور وقت کا انکشا ف نہیں کرے گی۔ لیکن پالیسی ، بذات خود وضاحت کی متقاضی ہے۔ اخبار کا موقّف ہے کہ اب جب کہ مسٹر اوبامہ نے ڈرون حکمت عملی کی کھل کر وضاحت کر دی ہے۔
اُنہیں قوم کو اس حکمت عملی سے مرتّبہ نتائج کے سب سے زیادہ تشویش ناک پہلو کے بارے میں بتانا پڑے گا ۔ یعنی آئینی لوازمات کو نظر انداز کر کے امریکی شہریوں کی ہلاکت۔ پچھلے سال یمن پر ایک ڈرون حملے میں نیو میکسکو کے شہری انور اولکی کو ہلاک کیا گیا تھا جو جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کی اہم شخصیت تھے اور ان کی ہلاکت کے جواز کے بارے میں امریکی انتظامیہ نے کوئی معتبر ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
شُنید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر اس کا قانونی جواز پیش کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اولکی کو زندہ گرفتار کرنا ناممکن تھا۔ الغرض، اخبار نے زور دے کر کہا ہے کہ اگر مسٹر اوباما کُھل کر بات کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں تو ان کی انتظامیہ کےباقی ارکان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئیے۔
سرد جنگ کی آخری لڑائی کےعنوان سےمشرق وسطیٰ کے امور کے معروف تجزیہ کار فواد نجمی ’وال سٹریٹ جرنل‘ میں لکھتےہیں کہ ایک وقت تھا جب افغانستان کو سرد جنگ کی آخری لڑائی تصوّر کیا جاتا تھا ۔ لیکن، اب یہ امتیاز شام میں جاری عوامی جدوجہد کو جانا چاہئیے۔ شام میں سووئیٹ طرز کی موجودہ ظالمانہ راج کی داغ بیل سابق ڈکٹیٹر حافظ اسد نے رکھی تھی، جنہوں نے 40 سال قبل ملک پر قبضہ کر کے اپنی فوج اور خُفیہ اداروں کو روسی طرز پر استوار کیا تھا۔
اُس کے بعد سے حالات میں زیادہ ردّوبدل نہیں ہوا ہے اور اُن کا بیٹا بشارالاسد انہیں کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔
سویٹ سلطنت کا تو خاتمہ ہو گیا ہے لیکن بحیرہء روم کے ساحل پر شام کی اس استبدادی حکومت کی موجودگی روس کو ایک عظیم طاقت ہونے کے واہمے میں مبتلاء رکھے ہوئے ہے۔ روس آرام سے بیٹھا رہا۔ جب تیونس کے زین العابدین اور مصر کے حسنی مبارک جیسے جابروں کو زوال آیا۔
لبیا کے معاملے میں وہ سلامتی کونسل میں ایک طرف ہو گیا۔، اور مغربی جمہوریتوں کی مدد سےمعمر قذافی کا بھی تختہ ہو گیا۔
اب شام نے روس کو اپنی اس لغزش کا مداوا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اور اس نے روس کو بحیرہء روم میں ایک بوسیدہ سی بندرگا ہ دے رکھی ہے جہاں واحد روسی طیارہ بردار جہاز پچھلے ماہ لنگر انداز ہوا تھا۔
فواد عجمی کو شکایت ہے کہ ترکی سمیت نیٹو ملکوں نے ابھی تک شا می ڈکٹیٹر شپ کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔اسی طرح، اقوام متحدہ کی طرف سے کسی حل کی پیشکش نہیں ہوئی ہے۔
مضمون نگار کو یہ بھی شکایئت ہے کہ روس واحد روکاوٹ نہیں ہے بلکہ ہندوستان ، برازیل اور جنوبی افریقہ نے بھی دمشق کی جابر حکومت کا ساتھ دیا ہے۔حکومت اور اس کے مخالفین، دونوں اس مشکل جد جہد میں بھاری قیمت ادا کر چُکے ہیں اور دونوں کو یہ امید ہے کہ وقت ان کا ساتھ دے رہا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: