اخبار’واشنگٹن پوسٹ‘ کےمطابق دہشت گردی کےخلاف اوباما انتظامیہ کے کارناموں میں سب سے زیادہ نما یاں القاعدہ کی صفوں کی صفوں کا صفایا کرنا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ تین سال کی مختصر مدّت میں اس نے ڈرون طیاروں کو استعما ل کرنے کے لئے ایک وسیع جال بچھا لیا ہے جس کی مدد سے مشتبہ دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے اور غنیم پر چوری چھُپے نظر رکھی جاتی ہے۔
ِاس مقصد سے، درجنوں خفیہ تنصیبات قائم کی گئی ہیں جن میں مشرقی امریکی ساحل پر دو مرکز شامل ہیں۔ اس کے جنوب مغربی علاقے میں ایسے مرکز ہیں جنہیں عملی طور پر ائیر فورس کے کاک پٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دو برّ اعظموں کے کم از کم چھ ملکوں میں خفیہ اڈّے قائم ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما سے پہلے کسی صدر نے قومی سلامتی کے مقاصد کی پیروی میں اتنے وسیع پیمانے پر افراد کو ہلاک کرنے کے لئے خفیہ طریقوں کا سہارا نہیں لیا۔
ڈرون طیاروں کےاستعمال میں اتنی تیزی آئی ہے کہ اِس کے نتیجےمیں سی آئی اے اور فوج کے درمیان حد ِفاصل کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ ان خفیہ کاروائیوں کو حسب ضرورت زیادہ سے زیاد ہ بروئے کار لایا جارہا ہے، اور ہتھیاروں اور عملے کو اس طرح یک جا کیاجارہا ہے تاکہ وہائٹ ہاؤس ان الگ الگ قانونی اداروں سے رابطےمیں رہے جنہیں اِس طرح ہلاک کرنے کی اجازت دینے کا اختیار ہے۔
یمن کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ وہاں سی آئی اے اور فوج کی سپیشل اوپریشنز کمان نے ایک ہی دُشمن کو ایک ہی قسم کے طیاروں سےنشانہ بنایا۔ ان حملوں میں اس سال ہلاک ہونے والوں میں تین امریکی شہری بھی تھے جن میں سے دو پر القاعدہ کے کارکن ہونے کا شبہ تھا۔
صدر اوباما کی پہلی میعاد کا ابھی ایک سال باقی ہے اور ان کی انتظامیہ ناقابل تردید دعوے کر سکتی ہے۔ اوساما بن لادن کو ٹھکانے لگا دیا گیا ہے، القاعدہ نیٹ ورک اب شکست کے دہانے پر پہنچ چکا ہےاور اس کےعلاقائی اتّحادیوں کے ارکان اب آسمان کے تارے گن رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ جب2009 ءمیں صدر اوباما نے حلف اٹھایا تھا تو اس وقت ڈرون طیاروں کا استعمال صرف ایک ملک یعنی پاکستان میں ہوتا تھااور جہاں پانچ سال کے دوران 44 ڈرون حملوں میں لگ بھگ 400 افراد ہلاک کئے گئے تھے۔
اس کے بعد سے ان حملوں کی تعداد اب 240 تک پہنچ گئی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد محتاط اندازوں کےمطابق چو گنی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اس سال ڈرون حملوں میں کمی آئی ہے جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ سی آئی اے وقتاً فوقتاً بحران کی صورت میں انہیں بند کر دیتی ہے۔ پھر پچھلے ماہ ایک غیر ارادی نیٹو فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے یہ حملے بند ہیں ۔ امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کےاہم ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی تعداد کم ہو کر صرف دو رہ گئی ہے۔
کیا ایران کو غیر فو جی ذرائع کا سہارا لئے بغیر جوہری ہتھیار حاصل کر نے سے باز رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایک سابق مشیر، ڈینس راس ، وال سٹریٹ جرنل میں لکھتے ہیں کہ صدر اوباما نے جو یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ایرانیوں کو جوہری بم حاصل کرنے سے باز رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف طاقت کا استعمال نا گزیر ہو گیا ہے؟
راس کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نہ بھولنا چاہئیےایران بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سےکافی دباؤ میں ہے اور اگلے چند مہینوں میں یورپی ممالک اس کا تیل خریدنا بند کر دیں گے جس سے دباؤ میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
تیل کی آمدنی سے محرومی اورایران کی ڈگمگاتی کرنسی ایرانی لیڈروں کے لئےناقابل برداشت ہوگی۔جس سے ایرانی لیڈر نجات کی کوئی صورت نکالنے پر مجبور ہونگے۔ وہ غیرفوجی استعمال کے لئے جوہری توانائی حاصل کر سکتے ہیں ، لیکن انہیں اس کو جوہری ہتھیاروں میں بدلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: