مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں ملا نذیر نامی جس پاکستانی طالبان کمانڈر کو جنوبی وزیرستان میں ہلاک کیا گیا ہے، اس کے بار ے میں 'وال سٹریٹ جرنل' کی رپورٹ میں 'ایسو سی ایٹد پریس' کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ کمانڈر اُن نو افراد میں شامل تھا، جو ایک مکان پر اس ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
اسی ایجنسی کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک گاڑی پر بھی ڈرون حملہ ہوا ہے جس میں مزید چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکہ ان ڈرون حملوں پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا جب کہ پاکستانی دفاعی اور انٹیلی جنس عہدہ داروں سے اس کا رابطہ نہ ہو سکا۔
اخبار کہتا ہے کہ ملا نذیر کی جنگجو تنظیم کا افغانستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں پر قبضہ ہے جہاں سے اس نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر سرحد کے اُس پار اتّحادی فوجوں کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔
اخبار نے ایک پاکستانی تجزیہ کار امتیاز گُل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملا نذیر نے علاقے میں پاکستانی فوجوں پر حملہ کرنے سے گُریز کیا ہے اور چار سال سے یہ جنگ بندی قائم ہے جس کی بدولت پاکستان کے لئے تحریک طالبان پاکستان پر اپنی توجّہ مرکوز کرنے میں مدد ملی ہے۔
یہ تنظیم پاکستان کے سویلین اور فوجی ٹھکانوں پر باقاعدگی کے ساتھ حملے کرتی آئی ہے۔ سنہ 2009 میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان پر حملہ کرکے اس کے بیشتر علاقوں کو پاکستانی طالبان کے چُنگل سے آزاد کرا لیا تھا، جن میں سے ُبہت سوں نے شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائیلی علاقوں میں جا کر پناہ حاصل کی۔
اخبار کہتا ہے کہ ملا نذیر کے ساتھ جنگ بندی کا مقصد جنوبی وزیرستان کو سالہا سال کی لاقانونیت کے بعد پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کے تحت لانا تھ۔ لیکن ملا نذیر،اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو بھی اپنے علاقے میں پناہ دیتا آیا ہے۔ جن میں بقول امتیاز گُل کے غالبا القاعدہ کے عرب جنگجو بھی شامل تھے، اور باور کیا جاتا ہے کہ اُنہیں جنگجؤوں نے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
اس طرح ملا نذیر دہری چال چل رہا تھا۔ اس اعتبار سے اُس کی ہلاکت پر پاکستان کو کوئی رنج نہ ہوگا۔
اُدھر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ صدر اوباما نے اپنا عہدہ تبدیلی کے نقیب کی حیثیت سے اور اس عزم کے ساتھ سنبھالا تھا کہ وُہ افغانستان کی گراں اور غیر مقبول جنگ کے خاتمے کے لئے کام کریں گے۔
لیکن ا س طرح کہ وہاں سے فوجوں کاا نخلاء باعزّت طریقے سے ہو۔ اس کے لئے اُنہوں نے کابل میں اپنے اتّحادیوں کو طویل المیعاد مالی معاونت کا وعدہ کیا اور باغیوں کے ساتھ مصالحت کا بھی مشورہ دیا۔
تاہم اخبار کی اطلاع ہے کہ بعض سرکردہ مشیروں کو اصرار ہے کہ وہاں سے فوجوں کے انخلاء کی رفتار بُہت سُست ہونا چاہئے اور اس کے علاوہ کئی ہزار فوجیوں کو افغانستان میں پیچھے چھوڑ دینا چاہئے۔ تاکہ وُہ افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے علاوہ اُن کی امداد بھی کر سکیں۔
صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے آغاز پر اُنہیں افغانستان کی یہی گُتھی درپیش ہے۔ اور وہ افغان صدر حامد کرزئی کے اہم دورے کی تیاری کر رہے ہیں، جو جنوری کے اوائل میں متوقع ہے۔
خفیہ سوویت دستاویزات کے مطابق میخائیل گورباچوف کو بھی ایسی ہی صورت حال درپیش تھی۔ جن کے مطابق وُہ اپنے پولٹ بیورو اور فوج سے ہی خُفیہ مذاکرات کر رہے تھے کہ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کو کیونکر ختم کیا جائے۔
ان دستاویزات سے واقف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے لئے اس میں سبق موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روس نے فوجیں نکالنے کے بعد بڑا صحیح قدم اُٹھاتے ہوئے اس وقت کی کابل حکومت کے لیے وسیع پیمانے پر فوجی امداد جاری رکھی تھی۔
چنانچہ اس امداد کی بدولت کابل کی حکومت تین سال تک قائم رہی۔ بلکہ سوویت واپسی کے بعد افغان فوج کی لڑنے کی قوّت بہتر ہو گئی۔
لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد فوجی اور مالی امداد بند ہونے کے تین ماہ بعد کریملن کی پروردہ کابل حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
البتہ یہ بات ضرو ر ہے کہ جہاں روسی مداخلت کو دنیا بھر میں کھلی جارحیت قرار دے کر اس کی مذمّت کی گئی تھی، امریکی مداخلت کو بشمول روس کے بین الاقوامی حمایت حاصل ہے اور اس کو انصاف پر مبنی جنگ قرار دیا گیاہے۔ جس کے محدود مقاصد طالبان کو شکست دینا اور القاعدہ کو ختم کرنا تھا۔ اور ضرورت کی یہ جنگ بقول اخبار کے اختیار کی جنگ میں بدل گئی ہے۔
ایک ایسی جنگ، جسے اوباما انتظامیہ، جس قدر جلد ممکن ہو ختم کرنا چاہتی ہے۔
اسی ایجنسی کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک گاڑی پر بھی ڈرون حملہ ہوا ہے جس میں مزید چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکہ ان ڈرون حملوں پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا جب کہ پاکستانی دفاعی اور انٹیلی جنس عہدہ داروں سے اس کا رابطہ نہ ہو سکا۔
اخبار کہتا ہے کہ ملا نذیر کی جنگجو تنظیم کا افغانستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں پر قبضہ ہے جہاں سے اس نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر سرحد کے اُس پار اتّحادی فوجوں کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں۔
اخبار نے ایک پاکستانی تجزیہ کار امتیاز گُل کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملا نذیر نے علاقے میں پاکستانی فوجوں پر حملہ کرنے سے گُریز کیا ہے اور چار سال سے یہ جنگ بندی قائم ہے جس کی بدولت پاکستان کے لئے تحریک طالبان پاکستان پر اپنی توجّہ مرکوز کرنے میں مدد ملی ہے۔
یہ تنظیم پاکستان کے سویلین اور فوجی ٹھکانوں پر باقاعدگی کے ساتھ حملے کرتی آئی ہے۔ سنہ 2009 میں پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان پر حملہ کرکے اس کے بیشتر علاقوں کو پاکستانی طالبان کے چُنگل سے آزاد کرا لیا تھا، جن میں سے ُبہت سوں نے شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائیلی علاقوں میں جا کر پناہ حاصل کی۔
اخبار کہتا ہے کہ ملا نذیر کے ساتھ جنگ بندی کا مقصد جنوبی وزیرستان کو سالہا سال کی لاقانونیت کے بعد پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کے تحت لانا تھ۔ لیکن ملا نذیر،اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی عسکریت پسندوں کو بھی اپنے علاقے میں پناہ دیتا آیا ہے۔ جن میں بقول امتیاز گُل کے غالبا القاعدہ کے عرب جنگجو بھی شامل تھے، اور باور کیا جاتا ہے کہ اُنہیں جنگجؤوں نے پاکستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
اس طرح ملا نذیر دہری چال چل رہا تھا۔ اس اعتبار سے اُس کی ہلاکت پر پاکستان کو کوئی رنج نہ ہوگا۔
اُدھر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ صدر اوباما نے اپنا عہدہ تبدیلی کے نقیب کی حیثیت سے اور اس عزم کے ساتھ سنبھالا تھا کہ وُہ افغانستان کی گراں اور غیر مقبول جنگ کے خاتمے کے لئے کام کریں گے۔
لیکن ا س طرح کہ وہاں سے فوجوں کاا نخلاء باعزّت طریقے سے ہو۔ اس کے لئے اُنہوں نے کابل میں اپنے اتّحادیوں کو طویل المیعاد مالی معاونت کا وعدہ کیا اور باغیوں کے ساتھ مصالحت کا بھی مشورہ دیا۔
تاہم اخبار کی اطلاع ہے کہ بعض سرکردہ مشیروں کو اصرار ہے کہ وہاں سے فوجوں کے انخلاء کی رفتار بُہت سُست ہونا چاہئے اور اس کے علاوہ کئی ہزار فوجیوں کو افغانستان میں پیچھے چھوڑ دینا چاہئے۔ تاکہ وُہ افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے علاوہ اُن کی امداد بھی کر سکیں۔
صدر اوباما کی دوسری میعاد صدارت کے آغاز پر اُنہیں افغانستان کی یہی گُتھی درپیش ہے۔ اور وہ افغان صدر حامد کرزئی کے اہم دورے کی تیاری کر رہے ہیں، جو جنوری کے اوائل میں متوقع ہے۔
خفیہ سوویت دستاویزات کے مطابق میخائیل گورباچوف کو بھی ایسی ہی صورت حال درپیش تھی۔ جن کے مطابق وُہ اپنے پولٹ بیورو اور فوج سے ہی خُفیہ مذاکرات کر رہے تھے کہ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کو کیونکر ختم کیا جائے۔
ان دستاویزات سے واقف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے لئے اس میں سبق موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روس نے فوجیں نکالنے کے بعد بڑا صحیح قدم اُٹھاتے ہوئے اس وقت کی کابل حکومت کے لیے وسیع پیمانے پر فوجی امداد جاری رکھی تھی۔
چنانچہ اس امداد کی بدولت کابل کی حکومت تین سال تک قائم رہی۔ بلکہ سوویت واپسی کے بعد افغان فوج کی لڑنے کی قوّت بہتر ہو گئی۔
لیکن سوویت یونین کے زوال کے بعد فوجی اور مالی امداد بند ہونے کے تین ماہ بعد کریملن کی پروردہ کابل حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
البتہ یہ بات ضرو ر ہے کہ جہاں روسی مداخلت کو دنیا بھر میں کھلی جارحیت قرار دے کر اس کی مذمّت کی گئی تھی، امریکی مداخلت کو بشمول روس کے بین الاقوامی حمایت حاصل ہے اور اس کو انصاف پر مبنی جنگ قرار دیا گیاہے۔ جس کے محدود مقاصد طالبان کو شکست دینا اور القاعدہ کو ختم کرنا تھا۔ اور ضرورت کی یہ جنگ بقول اخبار کے اختیار کی جنگ میں بدل گئی ہے۔
ایک ایسی جنگ، جسے اوباما انتظامیہ، جس قدر جلد ممکن ہو ختم کرنا چاہتی ہے۔