اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے ایک اداریے میں امریکی فوج کو دیے جانے والے اس اختیار پر تنقید کی ہے جس کے تحت فوج کسی بھی مشتبہ شخص کو قانونی کاروائی اور الزام کے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھ سکے گی۔
اخبار لکھتا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کانگریس اس نوعیت کی کاروائیوں کے سدِ باب کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کو تیار تھی جس کے باعث اس نے حکومت کو مشتبہ دہشت گردوں کی تلاش، گرفتاری اور ان کے خلاف کاروائی کے وسیع اختیارات سونپ دیے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ یہ اختیارات اتنے وسیع ہیں کہ حکومتی ادارے انہیں کبھی بھی کسی کے بھی خلاف بآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔
اخبار کے مطابق سالانہ 'ڈیفنس آتھورائزیشن بل' میں ان اختیارات میں مزید توسیع کی سفارش کی گئی ہے جس کے بعد امریکی فوج کو امریکی شہریوں سمیت کسی بھی مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام اور مقدمے کے غیر معینہ مدت تک قید میں رکھنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ اس کاروائی کے لیے فوج کو صدرِ امریکہ کی جانب سے صرف یہ تصدیق نامہ درکار ہوگا کہ فلاں شخص پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ہے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ یہ قانون امریکی آئین کی پانچویں ترمیم سے متصادم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے کسی بھی فرد کو ضروری قانونی کاروائی کے بغیر اس کی زندگی کے حق، آزادی اور جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے امریکی شہری ہمیشہ کے لیے حکومتوں کے جبر سے محفوظ بنا دیے گئے ہیں اور اس اہم ترین شق کو اتنی آسانی سے ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاسکتا۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ ایک وفاقی ضلعی عدالت پہلے ہی اس قانون کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے لیکن ابھی اعلیٰ عدالتوں سے اس پر فیصلہ آنا باقی ہے۔
اخبار 'ڈیلی نیوز' نے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کیے جانے والے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کے نائب سربراہ ابو یحیٰ ال لیبی کی ہلاکت پر ایک اداریہ شائع کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ال لیبی کو ہلاک کرنے کے امریکی دعویٰ پر شبہ کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کیوں کہ امریکہ ماضی میں بیسیوں بار القاعدہ کے نائب سربراہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرچکا ہے۔
'ڈیلی نیوز' لکھتا ہے کہ اگر اس بار یہ خبر درست ہے تو امریکہ کو اپنے ڈرون پروگرام، اس کے منتظم عملے اور ا ل لیبی کی موجودگی کی نشاندہی کرنے والے جاسوسوں پر فخر ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اخبار نے دیگر متعلقہ حکام اور صدر اوباما کی بھی تحسین کی ہے جنہوں نے، اخبار کے الفاظ میں، ال لیبی کو نشانہ بنانے کی منظوری دی۔
'ڈیلی نیوز'نے اپنے اداریے میں 'سی آئی اے' کے ایک سابق اہلکار کے حوالے سے ال لیبی کی شخصیت کا مختصر خاکہ بھی بیان کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ لیبیائی نژاد القاعدہ رہنما ایک جنگجو، شاعر، دانشور، سپہ سالار اور ایک کرشماتی شخصیت کا مالک تھا جس میں اسامہ بن لادن کا جانشین بننے کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔
اخبار کے مطابق ال لیبی کو افغان جنگ کے دوران امریکی فورسز نے حراست میں لیا تھا لیکن وہ جولائی 2005ء میں بگرام کے ہوائی اڈے سے فرار ہوگیا تھا۔ امریکی قید سے فرار کے بعد ال لیبی کو القاعدہ میں مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی تھی اور وہ عالمی دہشت گرد تنظیم کے مستقبل کے لیے ایک امید بن کر ابھرا تھا۔
اخبار 'شکاگو ٹربیون' لکھتا ہے کہ ماہرینِ نفسیات ان دنوں اس بارے میں گرما گرم بحث میں مصروف ہیں کہ آیا خود پسندی کو بدستور ایک نفسیاتی بیماری سمجھا جائے یا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ خودپسندی محض ایک معمول ہی نہیں بلکہ امریکی باشندوں کا قومی شوق بن چکی ہے۔
اپنے ایک مضمون میں اخبار لکھتا ہے کہ ایک خودپسند ہمیشہ دوسروں کی توجہ کا طالب رہتا ہے اور دوسروں سے صرف اس وقت تک سروکار رکھتا ہے جب تک وہ اس کی تعریف و توصیف کرتے رہیں۔ اخبار کے مطابق کچھ وقت گزرنے کے بعد خود پسندی کے شکار افراد یہ سوچتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ آخر وہ اس دنیا میں وہ اتنے تنہا کیوں ہیں اور ان کا کوئی دوست کیوں نہیں؟
'شکاگو ٹربیون' لکھتا ہے کہ امریکی معاشرے میں خودپسندی اتنی عام ہوچکی ہے اور خود پسند افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ امریکی ماہرینِ نفسیات نے اسے نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔
لیکن اخبار کے مطابق اس فیصلے کی اتنی سخت مخالفت ہوئی کہ ماہرینِ نفسیات کو خودپسندی کی تعریف میں بعض تیکنیکی تبدیلیاں کرکے اسے دوبارہ نفسیاتی عارضہ قرار دینا پڑا۔
اخبار کے مطابق امریکی ماہرینِ نفسیات کی ایک بڑی تعداد اب بھی اس خیال کی حامی ہے کہ خود پسندی کو افراد کے لیے ایک بیماری اور امریکی معاشرے کے لیے ایک ثقافتی خطرہ سمجھا جانا چاہیے اور اس کے تدارک کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔