کیوبامیں امریکی بحری اڈے گوانتانمو کے قید خانے میں خالد شیخ محمّد اور11/9 کے باقی چار ملزماں پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ان پانچوں کے خلاف اس سے پہلے 2008 میں بُش انتظامیہ کے دور میں ایک فوجی کمیشن نےمقدمہ شروع کیا تھا، لیکن جب صدر اوباما اقتدار میں ا ٓئے ، تو انہوں نے یہ مقدمہ مین ہٹن کی ایک وفاقی عدالت میں منٹقل کر دیا تھا، یہ عدالت ورلڈ ٹرید سنٹر سے تھوڑے سے فاصلے پر تھی لیکن وہاں مقدمہ چلانے کا فیصلہ سیکیورٹی کے اندیشوں اور کانگریس میں اس کی سخت مخالفت کی وجہ سے منسوخ کر دینا پڑا تھا۔ چنانچہ ا س کے بعد 2008 کے بعد پہلی مرتبہ القاعدہ کے ان شُہرت یافتہ پانچ قیدیوں کو منظر عام پر دیکھا گیا۔ وہ ڈھیلا ڈھالا اور ہلکے رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھے۔اور اُن کے وکیلوں نے شکائت کی، کہ وُہ ان کے لئے دوسرے کپڑے لے کر آئے تھے۔ لیکن قید خانے کے عہدہ داروں نے انہیں یہ کپڑے پہننے کی اجازت نہیں دی۔ ان کے خلافیہ فرد جرم ان قیدیوں کی زندگی کا تاہ ترین باب تھا۔ جن کی گرفتاری کے بعد انہیں سی آئی اےنے سال ہا سال سمندر پار قید خانوں میںنظر بند رکھا تھا۔ ان سے پُوچھ گچھ کرنے کے لئے سنگین طریق کار کا سہار لیا گیا تھا ۔ اس بحری اڈّے کا کمرہٗ عدالت مُہر بند ہے۔ اور ملزمان کی ہر بات کلاسی فائیڈ کے ذُمرے میں آتی ہے۔ عدالتی کاروائی کے دوران صفائی کے ایک وکیل نے شکائت کی اس کے موکل پر تشدّد کیا گیا ہے ۔ تو سینسر نے اس حصّے کو کاٹ دیا ، لیکن تشدّد کے بارے میں بعد میں کہی گئی باتوں کو رہنے دیا گیا ۔
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے۔ کہ عدالت کی کاروائی دیکھنے والےشیشے کی دیوار کے پیچھے موجود تھے۔ان میں اُن تین ہزار افراد کے متعدد اہل خانہ بھی تھے ، جو9/11 کے حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔ان لوگوں کو صحافیوں اور دوسرے مبصرین سے ایک نیلے پردے سے علیٰحدہ کر کے بٹھایا گیا تھا۔ اور عدالت کی کاروائی کلوزڈ سرکیٹ کے ذریعے امریکہ میں کئی مقامات پربھی دکھائی گئی۔
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کےمطابق امریکہ کےایک خفیہ پروگرام کے تحت امن کا عہد کرنے کے عوض اعلیٰ پائے کے باغیوں کو افغانستان کے ایک قید خانے سے رہا کیا جاتا رہا ہے ، اور یہ کاروائی باغیو ں کی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات اور تشدّد کو ختم کرنے کی ایک جراءتمندانہ کوشش کا ایک حصہ ہے۔ لیکن جس میں بقول اخبار کےبھاری خطروں کا امکان موجود ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ ایک طرف امریکہ طالبان کے ساتھ امن کا ایک سودا طے کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے ۔ اور دوسری طرف قیدیوں کی سٹرٹیجک رہائی کا پروگرام بھی جاری رہاہے۔ جس کے تحت امریکی عہدہ داران قیدیوں کی رہائی کو بد امنی کے شکارصوبوں میں مراعات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اخبار کی اطلاع ہے کہ ان قید یوں کی رہائی ایک طرح کا جُواء ہے ۔کیونکہ رہائی پانے والے قیدی بد نام جہاں لشکری ہوتے ہیں ۔ جنہیں فوجی قیدیوں سے متعلّق روائیتی نظام کے تحت رہائی نہیں مل سکتی۔ ان لوگوں سے وعدہ لیا جاتا ہے کہ وہ اب تشدّد سے توبہ کریں گے اور امریکی عہدہ دار انہیں خبر دار کرتے ہیں کہ اگر وُہ دوبارہ امریکی فوجیوں حملہ کرتے ہوئے پکڑے گئے تو پھر اُنہیں دوبارہ قید خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ قیدیوں کی رہائی اُن وسیع تر کوششوں کے دوران عمل میں آتی رہی ہے۔ جس کا مقصد اس دس سالہ جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرناہے ، افغانستان سے نکلنے کی اوباما انتظامیہ نے جو حکمت عملی وضع کی ہےیہ اس کا مرکزی پہلو ہے۔ البتہ حالیہ برسوں میں اں کوششوں کے نتیجے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔اور اخبار کہتا ہے اس کی جزوی وجہ یہ ہے ۔ کہ امریکہ گوان ٹانمو کے قید خانے سے پانچ قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے تیار نہیں ،یہ وہ اقدام ہے۔ جسے باغی لیڈر امن مذاکرات کے لئے پہلی شرط قرار دیتے ہیں۔ افغانستان میں واحد امریکی فوجی قید خانے پروان سے قیدیوں کی رہائی کے لئے کانگریس سے منظوری لینا ضروری نہیں ہوتا۔
فرانس کے عام انتخابات میں فرانسوا اولانڈ کی کامیابی سے اس ملک میں سترہ سال کے وقفے کے بعد ایک سوشلست صدر بر سر اقتدار آ گیا ہے۔جس کے بعد لاس انجلس ٹائمز ، کہتا ہے ، کہ یورپ کا واسطہ اب ایک ایسے بڑے لیڈر سے ہوگا۔ جس نے عہد کر رکھا ہے کہ وُہ یورپ کے قرض کے بُحران سے نمٹنے کے لئیے ایک مختلف راہ اختیار کر ے گا۔ اورکفائت پر جرمنی کو جو اصرار رہا ہے، اس کے برعکس اولانڈ کےپیغام میں اقتصادی نمُو کو مہمیز لگانےکی ضرورت پر رہا ہے۔ اور اخبار کی نظر میں اسی وجہ سے اولانڈنے اتوار کے انتخابات میں موجودہ صدر نکولس سر کوزی کے خلاف فیصلہ کن فتح حاصل کر لی۔