اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ لکھتا ہے کہ صدر اوباما جمعرات کو ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کو ختم کرنے کے لیے کانگریس میں اپنا منصوبہ پیش کریں گے۔ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان اُن سے کہہ رہے ہیں کہ وہ حزبِ مخالف کے دباؤ میں آئے بغیر بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کریں جِن سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔
اُن کے مخالفین ریپبلیکنز کا خیال ہے کہ اوباما اِس مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے، کیونکہ وہ خود ایک مسئلہ ہیں۔ اُن کی طرف سے صحت کے شعبے کے نظام میں تبدیلی اور بینکوں کی اصلاحات کے قانون کی وجہ سے امریکی کمپنیوں نے مزید لوگوں کو ملازمتیں دینی بند کردی ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ صدر اوباما کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ حالات کو صحیح کردیں اور نہ ہی اوباما کے بعد اگر کوئی ریپبلیکن صدر آیا تو وہ کچھ کرسکے گا۔
اِن دِنوں اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے صدور کے پاس وسائل کم ہی ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ وہ یہی کرسکتے ہیں کہ اِن سے پڑنے والے اثرات کو کم کردیں۔وفاقی حکومت جو پہلے ہی خسارے میں ہے اُس کے لیےڈیموکریٹس کے اخراجات بڑھانے کی تجویز اور ریپبلیکنز کی ٹیکسوں میں کمی کی تجویز دونوں ہی نامناسب ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی معیشت کے بحران سے نمٹنے میں ایک بڑی رکاوٹ صحت کے شعبے پر اُٹھنے والے اخراجات ہیں۔
اوباما کا صحت کا منصوبہ اگر ختم بھی کردیا جائے تو اُس سے اُن اخراجات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے کچھ ایسے پروگرام بھی ختم ہوجائیں گے جِن سے صحت کے اخراجات کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔
اخبار کے مطابق امریکہ میں ہر سال ایک شخص کی صحت پر تقریباً ساڑھے چھ ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ اِن اخراجات کو اگر کم کیا جائے تو معیشت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
’نیو یارک ٹائمز ‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی عہدے کے امیدوار موسمی حدت میں اضافے کو ایک ڈرامہ سمجھتے ہیں اور اُن میں سے ٹیکساس کے گورنر رِک پیری، جو تیل کے صنعت کاروں کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ اِس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ موسم میں تبدیلی ہو رہی ہے اور یہ کہ تھیوری وہ سائنس داں دے رہے ہیں جنھوں نے اعداد و شمار میں جان بوجھ کر ردو بدل کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ وہ اِس بات کو بالکل ملحوظِٕ خاطر نہیں لاتے کہ تقریباً سب سائنس داں موسمی حدت میں اضافے کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور یہ اضافہ اُن کے مطابق، کوئلے اور تیل کے جلائے جانے کی وجہ سے ہورہا ہے اور یہ کہ ابھی تک اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ کسی سائنس داں نے جان بوجھ کر اعدادو شمار میں ردوبدل کیا ہو۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِن صدارتی امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی فضائی آلودگی کی حد مقرر کرنے یا صاف توانائی کے پروگرام شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
اخبار کے مطابق اقتصادی بحران نے عام لوگوں کی توجہ موسمی تبدیلی کے مسئلے سے ہٹا دی ہے مگر یہ مسئلے حل ہونے والا نہیں ہے اور ملک کو ایک ایسے امیدوار کی اشد ضرورت ہے جو اس سلسلے میں منظم قومی حکمتِٕ عملی ترتیب دے سکے۔ ریپبلیکن پارٹی میں اِس وقت کوئی بھی ایسا امیدوار نہیں ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے کہ عالمی جوہری ادارے کی جمعے کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایران نے یورینئم کو افزودہ کرنے کے لیے نئے سینٹری فیوجز استعمال کرنا شروع کردیے ہیں جو اگر وہ چاہے تو کم عرصے میں بم بنانے والا مواد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، اُس نے قم شہر کے نزدیک پہاڑوں میں بنائی گئی تنصیب میں اِن سینٹری فیوجز کو نصب کرنا بھی شروع کردیا ہے جہاں پر امریکہ اور اسرائیل حملہ بھی نہیں کرسکتے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکی انتظامیہ سفارتی کوششوں سے ایران پر پابندیاں لگوانے میں تو کامیاب ہوگئی ہے لیکن اِن کی وجہ سے ایرانی لیڈر اپنے پروگرام سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہیں دیتے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اِس وقت امریکہ کی تمام توجہ عرب دنیا میں اُٹھنے والی تحریکوں پر لگی ہوئی ہے اور پالیسی ساز اِس طرف توجہ نہیں دے سرہے بلکہ جوہری ادارے کی رپورٹ کے بعد بھی انظامیہ کی طرف سے کوئی خاص ردِ عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
اِس کے برعکس، دوسرے ممالک اپنی اپنی تجاویز دے رہے ہیں جیسا کہ روس جس نے کہا ہے کہ اگر ایران اپنے پروگرام کے فوجی مقاصد کے بارے میں آئی اے اِی اے کو سب سوالوں کے صاف جواب دے دے تو اُس پر پابندیاں اُٹھا لینی چاہیئں۔ جب کہ ایران کا کہنا ہے کہ اگر پابندیاں ہٹالی جائیں تو وہ پانچ سال کے لیے مکمل نگرانی پر تیار ہے۔
اخبار کے مطابق، امریکہ اِن منصوبوں کی مخالفت کرے گا۔ تاہم، امریکہ کے پاس اِس وقت پیش کرنے کے لیے اپنا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: