اخبار'یوایس اے ٹوڈے' میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں میں خودکشی کی شرح تیزی سے بلند ہورہی ہے اور رواں برس یہ تعداد یومیہ ایک خودکشی تک پہنچ گئی ہے۔
خبررساں ادارے'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی اس رپورٹ میں 'پینٹاگون' کے اعداد و شمار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ سنہ 2012 کے ابتدائی 155 دنوں میں 154 امریکی فوجیوں نے خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ خودکشیوں کی یہ تعداد رواں برس افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد سے بھی 50 فی صد زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں میں خودکشی کی یہ بلند شرح ظاہر کرتی ہے کہ امریکی فوج عراق اور افغانستان کی جنگوں کا دباؤ محسوس کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ فوج میں جنسی زیادتیوں، نشہ آور اشیا کے استعمال، گھریلو تشدد اور نامناسب رویے کی شکایات بھی بڑھ رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2010ء اور 2011ء میں فوج میں خودکشیوں کی شرح برابر رہی تھی لیکن رواں برس اس میں تیزی سے اضافہ تعجب خیز ہے جس کی وجوہات کا مکمل طور پر تعین نہیں ہوسکا ہے۔
فوج کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے فوجیوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک سے زائد بار میدانِ جنگ میں رہ چکے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی حیرت انگیز ہے کہ ایسے فوجی بھی بڑی تعداد میں خودکشی کر رہے ہیں جو سرے سے کبھی کسی جنگ کا حصہ ہی نہیں رہے۔
اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نےاپنے ایک مضمون میں فلسطینیوں کی پرامن مزاحمتی تحریک کے بارے میں مغربی ممالک کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
اخبار کی مضمون نگار سارہ مروسِق لکھتی ہیں کہ کئی لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ 'عرب اسپرنگ' کے اس غلغلے میں آخر فلسطین کو کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے اور وہاں آنے والی سیاسی تبدیلیوں پر کیوں کسی کی نظر نہیں جارہی۔
مضمون نگار کے مطابق مغربی ذرائع ابلاغ نے فلسطینیوں کی اس تاریخی سیاسی جدوجہد کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے جس کے باعث فتح، حماس، اسلامی جہاد اور پاپولر فرنٹ جیسی مختلف الخیال تنظیمیں ایک دوسرے کے قریب آگئی ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ لبنان میں چار لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی باشندے پناہ گزین ہیں اور ان کی اکثریت اپنے حقوق کی واپسی کے لیے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی حامی رہی ہے۔ لیکن، اخبار کے مطابق، اب ان کے خیالات تبدیل ہو رہےہیں اوروہ پرامن مظاہروں کی طرف آرہے ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' کی مضمون نگار کے بقول مغربی میڈیا نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے حصول کی کوشش کو بھرپور کوریج دی۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ حماس کے رہنماؤں کے اس اعلامیہ سے لاتعلق رہے جس میں انہوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کو اولین راستہ قرار دینے کی اپنی پالیسی ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ رواں برس اسرائیلی جیلوں میں موجود سیکڑوں فلسطینی قیدیوں نے اپنے حقوق کے لیے اجتماعی بھوک ہڑتال کی جن کی حمایت میں فلسطینی علاقوں اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی رپورٹنگ سے گریز کیا۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' کے مطابق خود 'حماس' کے رہنماؤں نے صحافیوں کو یہ اطلاع دی کہ ان کی جماعت کئی مغربی حکومتوں سے مذاکرات کر رہی ہے، لیکن اس کے باوجود مغربی میڈیا نے اس خبر کا نوٹس ہی نہیں لیا۔
اخبار لکھتا ہے کہ فلسطینیوں کی یہ تمام سیاسی سرگرمیاں 'عرب اسپرنگ' کا حصہ ہیں اور ان سرگرمیوں میں فلسطین کی وہ تمام جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں جو اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرتی آئی ہیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' نے مغربی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی اس پرامن سیاسی تحریک کی حوصلہ افزائی کریں ور نہ ایسا نہ ہوکہ ان کی اس بے اعتنائی کے باعث اس پرامن تحریک میں شریک لوگ مایوس ہو کر دوبارہ مسلح جدوجہد کی طرف لوٹ جائیں۔
ادھر، امریکی کانگریس عنقریب ایک مجوزہ قانون پر بحث کاآغاز کرنے جارہی ہے جس کا مقصد پولٹری فارمز میں موجود انڈے دینے والی مرغیوں کی حالتِ زار بہتر بنانا ہے۔
اخبار 'فلاڈیلفیا انکوائرر' نے مجوزہ قانون سازی پر ایک اداریہ شائع کیا ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی پولٹری فارمز میں اس وقت 250 ملین سے زائد انڈے دینے والی مرغیاں موجود ہیں جنہیں سیکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں اتنے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں رکھا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پر پھیلانے کی جگہ بھی نہیں ملتی۔
اخبار لکھتا ہے کہ مجوزہ قانون کا مقصد ان مرغیوں کے پنجروں کو بتدریج کشادہ کرنا اور ان میں ایسی سہولیات فراہم کرنا ہے جن کے نتیجے میں مرغیوں کو قدرتی ماحول میسر آسکے۔ ماہرین کے مطابق مرغیوں کو کشادہ پنجروں میں رکھنے سے ان کے انڈے دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
اخبار لکھتا ہے کہ نہ صرف ڈیموکریٹس اور ری پبلکن اراکینِ کانگریس اس مجوزہ قانون کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ امریکی پولٹری فارمز کی ملک گیر نمائندہ تنظیم بھی اس کی حامی ہے۔ اس وسیع تر حمایت کے باعث امید ہے کہ یہ قانون بآسانی منظور کرلیا جائے گا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: