رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: افغان خانہ جنگی کا حل


امریکی اخبارات سے: افغان خانہ جنگی کا حل
امریکی اخبارات سے: افغان خانہ جنگی کا حل

امریکی عہدہ داروں کا یہ تاثُّر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی، امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی سنجیدہ کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں: اخباری رپورٹ

کیا افغانستان ایک پُر امن مستقبل کی طرف جا رہا ہے؟ اس پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ پیٹر تھامسن کی نظر میں جو اس ملک میں چار سال تک امریکی سفیررہ چکے ہیں، افغانستان کی خانہ جنگی کے حل کے لئے ضروری ہےکہ یہ افغان عوام کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہو۔

لیکن، جیسا کہ اخبار کی نامہ نگار لارا کِنگ کابل سے، ایک مراسلے میں بتاتی ہیں، امریکی عہدہ داروں کا یہ تاثُّر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ طالبان کےساتھ مذاکرات شروع کرنےکی جو بھی سنجیدہ کوشش امریکہ کرتا ہے اس میں افغان صدر حامد کرزئی سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اخبار کا سوال ہے کہ اگر افغانوں کویہ مسئلہ خود حل کرنا ہے اور افغانوں کے درمیان اس پر اتّفاق رائے نہیں کہ یہ مسئلہ کیونکر حل ہوگا، تو پھر حل کیسے آئے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ دوسری بار منتخب ہونے کے بعد مسٹر کرزئی بار بار کہہ چکے ہیں کہ ان کی اولین ترجیح یہ ہے کہ اس خُونی جنگ کا کوئی سیاسی تصفیہ ہو۔ لیکن انہوں نے امریکہ کی اُن کوششوں میں باربارروڑے اٹکائے ہیں جن کا مقصد باغیوں کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا۔ اور انہوں نے کئی ایسے اقدامات کئے جن کا مقصد جان بوجھ کر امریکہ کو اشتعال دلانا تھا۔

’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ طالبان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ مفاہمت کے مقصد سے قطر میں ایک دفتر کھولنے سے قبل مسٹر کرزئی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ یہ رابطے نہ ہوں۔ بلکہ انہوں نے قطر سے اپنا سفیر بھی واپس بلالیا تھا۔ اور شکایت کی تھی کہ ان کی حکومت کو ان اہم مذاکرات سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ امریکی دباؤ کے تحت مسٹر کرزئی نے بادل ناخواستہ قطر کے اس انتظام کو قبول کیا تھا۔

لیکن، اس کے چند ہفتوں کے اندرمسٹر کرزئی نے سعودی عرب میں باغیوں کے ساتھ متوازی مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی، اور یہ شکایت کی تھی کہ انہیں کلیدی گُفت و شنید سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ خود باغیوں نے اس کی تردید کر دی تھی کہ اُن کا سعودی عرب میں مذاکرات کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔

پچھلے ہفتے مسٹر کرزئی نے دورے پر آئی ہوئی پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربّانی کھر کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، جنہوں نےایک نیوز کانفرنس کو بتا یا کہ پاکستان امن کے ایسے عمل کا حامی ہے جس کی قیادت افغانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اس میں اشارتہً یہ انتباہ تھا کہ قطرمیں متوقع امن مذاکرات جو رُخ اختیار کرتے ہیں۔ اس پرامریکہ کا بُہت زیادہ تصرُف نہ ہو ۔

اخبارکہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے اتّحادیوں کے لئے تکلیف دہ سہی۔ انہیں اعلانیہ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ امن کا کوئی بھی عمل افغان قیادت میں ہوگا،باوجودیکہ طالبان کرزئی انتظامیہ کو غیر متعلّق سمجھتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر کرزئی کی مایوسی اس وجہ سے بھی ہے کہ انہوں نے اپنے طور سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ کھولنے کی جو سرتوڑ کوشش کی تھی وہ بُری طرح ناکام ہوئی تھی۔

اخبار کہتا ہے باہمی عدم اعتماد کے ہوتے ہوئے طالبان اور امریکی عہدیدار اشارہ دے چکے ہیں کہ قطر مذاکرات سے پہلے اعتماد سازی کےاقدام ہوں، مثلاً قیدیوں کا تبادلہ یا افغانستان کے بعض علاقوں میں محدود جنگ بندی۔ لیکن مسٹر کرزئی جتا چکے ہیں کہ ایسے اقدامات اُنہیں کے دستخطوں سے ہونگے۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق ایسے میں جب شام کے شہر حامز میں سرکاری فوجوں کی ٹینکوں اور راکیٹوں سے گولہ بار ی جاری ہے اور پانچ دن سے محصور اس شہر میں درجنوں مزید لوگ ہلاک ہوئے ہیں، تُرکی نے جس قدرجلد ممکن ہو ایک بین الاقوامی سربراہ اجلاس طلب کیا ہے جس میں وسط مشرقی اور عالمی طاقتیں شرکت کریں گی ا ور صدر بشارالاسد پر اقتدار سے الگ ہونے پر زور دیں گی۔ ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلُو نے کہا ہے کہ ہم شام کو اپنے حال پر نہیں چھوڑیں گے۔

اخبار ’نیو یارک نیوز ڈے‘ کہتا ہے نیویارک کی ریاست میں دو عشروں سے یہ بحث جاری ہے کہ کلیساؤں کو پبلک سکولوں کی عمارات میں عبادت کی سروس منعقد کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔

ایک ادارئے میں اخبار کہتا ہے کہ ان سروسز سے کلیسا کو مملکت سےعلیٰحدہ رکھنے کے مروّجہ اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

نیویارک شہر کے عہدہ داروں کی یہ کوشش کہ اس کی اجازت نہ ہو۔ سنہ1994 سے مختلف عدالتوں کے زیر سماعت رہی ہے اور اب ایک وفاقی عدالت نے بالآخر اسے ممنوع قرار دیا ہے۔ لیکن اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا ان عمارات میں سکول کے اوقات کے بعد ایسی سروسز آئین کے خلاف ہونگی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG