’نیویارک ٹائمز‘ میں معرُوف کالم نویس ٹھامس فریڈمان نے ایک خیال افروزمضمون میں اپنے ضمیر کو ٹٹولنے کے اُس عمل کا جائزہ لیا ہےجِس سے، اُن کی دانست میں، دنیا کے دو سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان اور امریکہ اِس وقت گُزر رہے ہیں۔
دونوں ملکوں میں رشوت ستانی اور زیادتیوں کے خلاف عوامی سطح پرتحریکیں چل رہی ہیں۔ لیکن، مضمون نگار کی دانست میں فرق یہ ہے کہ ہندوستانی جس چیز کےخلاف احتجاج کر رہے ہیں وُہ ناجائز اورغیر قانونی ہے، یعنی اُس نطإ م کےخلاف جس میں کوئی کام کرانے کے لئے آپ کو انتظامیہ کی ہر سطح پر رِشوت دینی پڑتی ہے۔
اِس کے برعکس ، امریکہ میں، بقول مضمون نگار کے، یہ نظام جائز ہے جِس میں سُپریم کورٹ نے انتخابی مُہم کے لئے چندوں کی شکل میں رشوت دینے کی کُھلی چُھٹی دے رکھی ہے۔ جس کی مدد سے، مالیاتی سروِسز فرہم کرنے والی صنعت موثّر طور پر کانگریس کو اور دونوں سیاسی پارٹیوں کو خرید سکتی ہے اور اِس طرح خطرہ مول لینے پر پابندیوں کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
فریڈمان کا کہنا ہےکہ مماثلت یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ہندوستانیوں کو جو چیزسڑکوں پر لے آئی، اُس کا مقصد کرپشن کے خلاف مُلک گیر تحریک کی حمائت کرنا ہے، اور اِسی چیز نے’وال سٹریٹ قبضہ تحریک‘ کو بھی جنم دیا۔ اور درمیان کی طرف جُھکاؤ رکھنے والی اُس تنظیم کو بھی ، جِس کا مقصد انٹرنیٹ کو آزاد صدارتی اُمّید وار نامزد کرنے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ فریڈمان کہتے ہیں کہ اس سے یہ تاثُّر ملتا ہے کہ دونوں ملکوں کی جمہوُری طور پر مُنتخب شُدہ حکومتوں نے اپنے آپ کواُن خصوصی مفادات کا اِس حد تک دست نِگر بنا رکھا ہے کہ اب اصلاحات نافذ کرنا اُن کے بس میں نہیں رہا۔
اِس لئے، مضمون نگار کے خیال میں دونوں کو باہر سے شاک تھیریپی Shock Therapy دینے کی ضرورت ہے۔
فریڈمان کہتے ہیں کہ بڑا فرق یہ ہے کہ امریکہ میں ’وال سٹریٹ قبضہ تحریک‘ کا کوئی لیڈر نہیں ہے اور نا ہی کوئی متّفقہ مطالبات۔ اور اگرچہ عوام میں اِس کے لئے جامد حمائت موجود ہے۔ اس کے سرگرم کارندوں کی تعداد کم ہے۔ اس کے برعکس ہندوستان میں کرپشن کے خلاف تحریک کے لاکھوں کی تعداد میں لوگ حامی ہیں۔اور اُسےانّا ہزارے جیسا لیڈرمیسّر ہے، جنہوں نے اپنے تحریک کوہندوستان کی آزادی کی دوسری جِدّوجہد کا نام دیا ہےاور فریڈمان کے نزدیک دونوں ملکوں کی عُضوِ معطّل والی جمہُوریتوں کو فعال بنانے کی یہ تحریک موجودہ نسل کے لئے اُسی اہمیت کی حامل ہیں جو پچھلی نسل کے لئے ہندوستان کی تحریک آزادی اور امریکہ کی شہری آزادیوں کی تحریک کی تھی۔
امریکہ کے ’سین فرانسسکو کرانیکل‘ یورپی ممالک کی مالی مشکلات پرایک ادارئے میں کہتا ہے اس میں عبرت کا سبق ہے۔ یورپی ممالک کے حالات اربوں ڈالر کے قرضوں، سربراہانِ حکومت کی اپنے عہدوں سے اچانک رُخصتی اور پینشن کی رقوم اور روزگار میں یک لخت کٹوتی سے عبارت ہیں۔ اخبار کہتا ہے، کیا واشنگٹن کی بحراوقیانوس کے اُس پار برپا ہونے والے انقلاب پر نظر ہے؟ کیونکہ ابھی تک، جِس بارہ رُکنی کمیٹی کے سپرد مالی مسائل کا حل ہے اس میں اب تک سمجھوتے کی جانب پیش رفت کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
یورپ اور امریکہ کے حالات بالکل یکساں تونہیں ہیں۔ یونان اوراٹلی نے اپنی اقتصادی خود مختاری اُس برِّاعظم کی مشترکہ کرنسی کے ڈسپلن کے بھینٹ چڑھا دی ہے۔ جب کہ واشنگٹن کا اپنی قسمت پر پورا تصرّف ہے۔ لیکن دونوں بڑی امریکی پارٹیاں ابھی سمجھوتے سےکافی دور ہیں۔ اور یہ سوپر کمیٹی سیاست کے ہاتھوں مجبور ہے۔ ری پبلکنوں کا زور اِس پر ہے کوئی نئے ٹیکس نہ لگائے جائیں جب کہ ڈیموکریٹ اِس پرمصِر ہیں کہ آمدنی کے نئے ذرائع ہوں۔ اور سوشل سیکیورٹی اور صحت کی نگہداشت میں کوئی کٹوتی نہ ہو۔ اخبار کہتا ہے ٴ کہ یورپ کا ’سوپ آپرا‘ ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی مشکل فیصلے کرگزرو۔ چاہے اس میں سیاسی کریّر کی قربانی بھی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔ چنانچہ، کمیٹی کو یاتو قرض کم کرنے کا کوئی کا منصوبہ دینا ہوگا۔ ورنہ وہ فارمولا خود بخود عمل میں آئے گا، جس کے تحت دفاعی اور غیر دفاعی پروگراموں میں ایک اعشاریہ تین ٹریلین ڈالر کی کمی کی جائے گی۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ کہتا ہے کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادراے نے ایران کے بارے میں جو تازہ رپورٹ جاری کی ہے اُس نے اِس بات کی تصدیق کردی ہے۔ اور جو بہرحال بُہت سُوں کو پہلے ہی سے معلوم تھی کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کےدرپے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ کا یہ حوصلہ ہوگا کہ وہ اس خطرناک اورغیر قانونی سرگرمی کو روکنے کے لئے قدم اُٹھائے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی کے علاوہ دوسرے ملک مثلاً سعُودی عرب اور اسرا ئیل ہیں، جن کو اس صورت حال سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے اور اُنہیں کا اِس سے نمٹنے میں زیادہ فعال کردار ہوگا۔ امریکہ کے پاس یہ چارہ ہوگا کہ وُہ ان کی کاروائی کی حمائت کرے ٴ اور اس بات کی ضمانت دے کہ ایرانی پروگرام کا خاتمہ ہو یا پھر اس ناگُزیر بُحران کو قابُو سے باہر جانے کی اجازت دے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: