’نیو یارک پوسٹ‘ نے صدر اوباما کے اِس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے کہ واشنگٹن میں سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کی ایرانی سازش کے طشت از بام ہونے کے بعد ایران کے اِس غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا احتساب ہوگا۔
صدر کا انتباہ اِس انکشاف کے بعد آیا کہ ایران کے اعلیٰ عہدے دار امریکی سرزمین پر سعودی اور اسرائیلی سفارت خانوں کو بموں سے اڑانے اور سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کی سازش کر رہے تھے۔
صدر نے کہا کہ یہ سازش ایرانی حکومت کے خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا حصہ ہے اور اُن متعدد اقدامات کی ایک مثال ہے جو ایرانی لیڈروں نے تشدد کو ہوا دینے کے لیے کیے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ایران عالمی دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست ہے جِس نے عراق، افغانستان، لبنان اور دوسرے ملکوں میں امریکی فوجیوں کو خود یا دوسروں کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔تہران کی دیدہ دلیری اُس کی تازہ سازش سے ظاہر ہے، جسے امریکی سرزمین کے اندر پایہٴ تکمیل کو پہنچایا جانا تھا۔
اخبار نے صدر اوباما کے اِس اعلان کو سراہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف سخت ترین تعزیرات کامطالبہ کریں گےاور یہ بات یقینی بنانے کےلیے عالمی کوششیں کریں گے، تاکہ ایران اپنے اِن کرتوتوں کی سزا پائے۔
’وال سٹریٹ پر قبضہ کرو‘ تحریک جو 17ستمبر کو چند سرگرم سیاسی کارکنوں نے نیو یارک میں شروع کی تھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے امریکہ میں پھیلتی جار ہی ہے۔احتجاجی مظاہرین کی تعداد بھی روز بروز بڑھتی جار رہی ہے اور ذرائع ابلاغ میں اُن کا بہت چرچا ہو رہا ہے جِس سے امریکہ کے باقی علاقوں میں اِسی قسم کے مظاہروں کو ہوا لگتی ہے۔
اِن مظاہرین کا یہ الزام ہے کہ دولتمند لوگوں کا غریب اور متوسط طبقے کے درمیان جو تفاوت ہے کارپوریٹ امریکہ اُس کو مزید بڑھاناچاہتا ہے۔
اخبار مرکری نیوز Mercury Newsایک اداریے میں کہتا ہے کہ اِس تحریک نے بالآخر ملک کو درپیش مسائل کی صحیح تشخیص کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ عشروں سے دونوں پارٹیوں کے قانون ساز امیروں کو امیر تر بنانے میں مصروف رہے۔ اُن پر ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم رکھا اور قواعد و ضوابط سے آزاد رکھا۔
اِس کا سب سے زیادہ فائدہ وال سٹریٹ نے اُٹھایا جب کہ 99فی صد آبادی کی آمدنی میں سر مور اضافہ نہ ہوا، بے روزگاروں کی شرح نو فی صد تک پہنچی ہے جب کہ پانچ کروڑ افراد صحت کی نگہداشت سے محروم ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وال سٹریٹ قبضہ تحریک نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا ہے اور یہ نئے خیالات کی منڈی میں ایک خوش آئند اضافہ ہے۔
رسالہ ’ٹائم‘ نے ایک نئے استصواب کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کے مستقبل کے بارے میں سنگین قنوطیت کے اظہار اور مقبولیت کے گِرتے ہوئے اعداد و شمار کے باوجود، صدر براک اوباما ریپبلیکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے امیدوار حریفوں مِٹ رامنی Mitt Romney اور رِک پیری Rick Perryسے آگے ہیں۔
ریپبلیکن پارٹی میں اِس وقت میساچوسیٹس کے سابق گورنر مِٹ رامنی اپنی پارٹی کے دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں آگے ہیں۔ لیکن متوقع ووٹروں میں صدر اوباما اُن سے 43فی صد کے مقابلے میں 46فی صد کے فرق سے آگے ہیں۔
اِسی طرح، رِک پیری کے 38فی صد کے مقابلے میں صدر اوباما 50فی صد سے آگے ہیں۔
ریپبلیکن پارٹی میں اِس وقت مقبولیت کے اعتبار سے ہرمن کین Herman Cainتیسرے نمبر پر ہیں اور اُنھیں ٹی پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ اُن پر بھی صدر اوباما کو 37فی صد کے مقابلے میں 49فی صد کی برتری حاصل ہے۔
خواتین ووٹروں میں بھی اوباما کو برتری حاصل ہے، یعنی رامنی کے 41فی صد کے مقابلےمیں 49فی صد سے، ہیری کے 36فی صد کے مقابلے میں 59فی صد سے اور کین کے 32فی صد کے مقابلے میں 53فی صد سے۔ لیکن، امکانی ری پبلیکن امیدواروں کے مقابلے میں صدر اوباما کی اِس سبقت کے باوجود ہزاروں عامة الناس میں اُن کی پوزیشن ڈگمگا رہی ہے۔ اِس وقت صرف 44فی صد ووٹر اُن کی کارکردگی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یعنی جون میں کیے گئے ایسے ہی استصواب سے چار پوائنٹ کم۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: