شام کی افسوس ناک صورت حال پر اخبار شکاگو ٹریبیون کہتاہے کہ امریکہ ا ور اس کے اتّحادیوں پر لازم ہے کہ وہ شامی صدر اسد کو ایک زور کا دھکّہ دیں۔ اسد حکومت کےمکمّل مالیاتی بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ اخبار نے شامی باغیوں کی ہتھیاربندی کرنے اور انہیں مالی امداد فراہم کرنے کی وکالت کی ہے۔ ہزاروں فوجی پہلے ہی فوج چھوڑ کر بھاگ گئے ہین اور بہت سے سپاہی اپنی بیراکوں میں ہیں ۔ کیونکہ حکومت کو ان پر اعتماد نہیں رہا۔اگر باغیوں کو ہتھیار مہیّا کئے جایئں ۔ تو اس سے مزید فوجیوں کو فوج چھوڑ کر باغیوں کی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب ہوگی۔
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ براہ راست فوجی مداخلت کی جائے۔ اس کے لئے وہ لیبیا کے معمر قذافی کے خلاف نیٹو بمباری کی مثال دیتے ہیں۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ شام لیبیا نہیں ہے۔لیبیا میں باغیوں کے قبضے میں وسیع ساحلی علاقے تھے۔ لیکن شام میں باغیوں کے تصرّف ابھی کوئی قابل ذکر علاقہ نہیں ہے۔
البتہ شام کے احتجاجی مظاہرین اور فوج چھوڑ کر آنے والےجوانوں کی ثابت قدمی اسی طرح ولولہ انگیز ہے جیسے مصر ، تیونس اور لببیا میں دیکھنے میں آئی تھی۔اور شام کے عوام کو امداد میسّر آئی تو وہ بھی اس جدوجہد سے سُرخ رُو ہو کر نکلیں گے
اخبار بالٹی مور سن فلسطین کی دو تنظیموں ، فتح اور حمّاس کے مابین مصالحت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ نہیں ہونے چاہئیں۔ کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا خاتمہ ہو گیا ہے۔البتہ صحیح قسم کی مدبّرانہ سیاست کی ضرورت پڑےگی۔
دونوں تنظیموں کے مابین از سر نو قائم ہونے والے اس تعاون سےاسرائیل سیخ پا ہو گیا ہے، جو حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ اخبار کہتاہے فلسطینی صدر محمود عبّاس نے مذاکرات کو پس پشت چھوڑ کر اقوام متحدہ سے اپنی مملکت کو تسلیم کرانے کی جو کوشش کی تھی ۔ اسے امن کے امکانات کے لیے ایک اور برا شگون ضرور سمجھا جائے گا ۔ لیکن اس کی تہہ میں ایک اور امکان بھی موجودہے۔ وہ یہ کہ عربوں کی نئی جمہوری تحریک نےدنیائے اسلام ہیں جس نئی علاقائی تبدیلی کو جنم دیا ہے اگر مسٹر عبّاس اس کو بروئے کار لاکرحماس کی انتہا پسندی میں اعتدال پیدا کر سکیں۔ تواس سے ان کے مقاصد کے حصول میں اقوام متحدہ میں ان کی کاوشوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ پیش رفت ہو گی ۔ اخبار کہتاہے۔ کہ فتح اور حماس کی ٕمخلوط حکوت کے امکان کا بُہت سے فلسطینیوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم نے انہیں خبردار کیا ہے کہ اس کے بعد انہیں اسرائیل کے ساتھ مزید تعاون کو بھول جانا چاہئے۔
بالٹی مور سن کہتاہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ حماس کی نفرت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن کا قیام اسرائیل کے لئے اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک فلسطینی فتح اور حماس کے دو دھڑوں میں بٹے رہیں گے۔ لیکن انتخابات کے بعد اگر مسٹر عباس کی قیادت میں ایک متحدہ فلسطینی حکومت وجود میں آتی ہے تو سیاسی حقائق حماس کو اسرائیل کی طرف اپنے رویے میں نرمی برتنے مجبور کریں گے۔
افغانستان کی لڑائی میں ٹھیکیداروں کے کردار پر انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی روائتی اسامیوں، مثلاً با ورچیوں ، فوجی اڈّوں کے گارڈوں اور کانوائے کی گاڑیاں چلانے والے ڈرئیوروں کی اسامیوں کو ٹھیکے پر دینے کے علاوہ بہت سے امریکی جنرلوں نے اور سفارت کاروں اپنے ذاتی محافظوں کے لئے بھی پرائیویٹ ٹھیکیداروں سے کام لینا شروع کیا ہے، چنانچہ امریکی کمپنیوں کے لئے کام کرنے والے ٹھیکے پر کام کرنے والے جتنے شہری پچھلے سال ہلاک ہوئے ۔ ان کی تعداد ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں سے زیادہ ۔ اور ایسا اس جنگ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے ۔ پچھلے سال امریکی ٹھیکیداروں کے کم از کم 430 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جن میں سے 386 محکمہٗ دفاع کے لیے کام کرتے تھے۔اس کے مقابلے میں اسی دوران افغانستان میں لڑائی میں کام آنے والے امریکی فوجیوں کی تعداد418 تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق ٹھیکے پر کام کرنے والوں میں سے جتنے ہلاک ہوتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری کےمہینے میں فغانستان میں محکمہٗ دفاع کے ٹھیکیداروں کی مجموعی تعدادایک لاکھ تیرہ ہزار سے زیادہ تھی۔ اس کے مقابلے میں باقاعدہ امریکی فوجیوں کی تعدادنوے ہزار تھی۔سویلین ٹھیکداروں کے ملازمین میں سے 25 ہزار سے ذرا زیادہ یا 22 فی صد امریکی شہری تھے۔ 47 فی صد افغان شہری اور باقی ماندہ31 فی صد دوسرے ؎ممالک سے آئے تھے۔ ہلاک ہونے والےٹھیکے کے کارندوں کا تعلّق چند بڑی کمپنیوں سے تھا۔ خاص طور پر جو مترجم، ڈرائیور ، سیکیورٹی گارڈ اور اسی قسم کا امدادی عملہ فراہم کرے ۔ جو خاص طور پر حملوں کی زد میں ہوتے ہیں