اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے ایک اداریے میں ڈرون حملوں کی افادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے قبائلی علاقے میں کیے جانے والے ایک ڈرون حملے القاعدہ کے نائب سربراہ ابو یحیی ال لیبی کی ہلاکت ان حملوں کی افادیت کا بیِّن ثبوت ہے۔ لیکن اس حملے کے بعد ڈرون حملوں کی اخلاقی حیثیت اور اثر پذیری پر بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ ڈرون حملوں کی حمایت اور مخالفت میں جاری تند و تیز بحث میں جو چیز غائب ہے وہ ہے ان طیاروں کا ایسا متبادل تجویز کرنا جو قابلِ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز بھی ہو۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ڈرون طیارے اپنی اثر پذیری ثابت کرچکے ہیں اور ان کے ذریعےگزشتہ ایک برس کے دوران پاکستان اور یمن میں القاعدہ کے صفِ اول کے چھ رہنما قتل کیے جاچکے ہیں۔
'یو ایس ٹوڈے' نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈرون حملوں کی انہی کامیابیوں کی بدولت امریکہ کے 83 فی صد عوام ان کے حامی ہیں۔ لیکن اخبار کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ڈرون حملوں میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کو کم سے کم کیا جائے کیوں کہ ان کے نتیجے میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان اور یمن کی حکومتوں پر امریکہ کے ساتھ تعاون ختم کرنے کے لیے دبائو بڑھ رہا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ جب تک امریکی عوام کو محفوظ رکھنے کا کوئی بہتر راستہ سامنے نہیں آتا، امریکہ کے دشمنوں کے خلاف ڈرون حملے جاری رہنے چاہئیں۔ کم از کم اس وقت تک جب تک اسامہ بن لادن کے جانشین ایمن الزواہری کو بھی نشانہ نہیں بنالیا جاتا۔
اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے بھارت کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات کے تناظر میں اقتصادی اصلاحات کی ضرورت پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔
اخبار کا مضمون نگار لکھتا ہے کہ بھارتی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آرہی ہے جب کہ شرحِ نمو گزشتہ نو برس کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ اس ابتر اقتصادی حالت کے پیشِ نظر عالمی ریٹنگ ایجنسیاں خبردار کرچکی ہیں بھارت کی کریڈٹ ریٹنگ کم کی جاسکتی ہے۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنا تو دور کی بات بھارتی حکومت سرے سے ان کے وجود ہی سے انکاری ہے اور، اخبار کے الفاظ میں، تلخ حقائق سے نظریں چرانے کی روش پر کاربند ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ملک کے معاشی حالات سدھارنے کے طریقوں اور مشوروں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے جن میں حکومت کو بتایا جارہا ہے کہ وہ معاشی مشکلات پر قابو پانے اور ملک کو دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے کیا کرے۔
لیکن 'وال اسٹریٹ جرنل' کا موقف ہے کہ بھارتی اقتصادیات کا اصل مسئلہ پالیسی نہیں بلکہ 'پالیٹکس' یعنی سیاست ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ بھارت اپنے معاشی مسائل پر اس وقت تک قابو نہیں پاسکتا جب تک اس کے تمام سیاست دان عوام کو معاشی اصلاحات کی افادیت کے بارے میں آگاہ کرنے کی ذمہ داری نہیں نبھاتے۔
'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق بھارتی سیاسی جماعتوں میں یہ سوچ پروان چڑھ گئی ہے کہ معاشی اصلاحات کی حمایت سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی سیاسی جماعتوں نے آج تک قومی سطح پر معاشی اصلاحات کی ضرورت اور اہمیت واضح کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ ایک ارب سے زائد آبادی والے بھارت کے ایک تہائی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کی حالت سدھارنے کے لیے بھارتی سیاست دانوں کو ملک کے اقتصادی معاملات میں اصلاحات لانا ہوں گی۔
اخبار 'نیو یارک پوسٹ' نے اپنے ایک مضمون میں امریکی اسکولوں میں اساتذہ کے ہاتھوں معصوم طلبہ کے جنسی استحصال کے واقعات کی روک تھام پر زور دیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکی محکمہ تعلیم کے اعداوشمار کے مطابق امریکہ میں اسکول کی سطح کا ہر 10 میں سے ایک طالبِ علم کبھی نہ کبھی اپنے اساتذہ کے ہاتھوں جنسی استحصال کا نشانہ بنتا ہے اور امریکی معاشرے میں اس ظلم کا شکار ہونے والے طالبِ علموں کی کل تعداد 45 لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔
لیکن اخبار کے مطابق ان ہولناک اعداد و شمار کے باوجود ان واقعات کے ذمہ دار بیشتر اساتذہ نہ صرف قانونی کاروائی سے بچ نکلتے ہیں بلکہ اپنی تدریسی سرگرمیاں بھی جاری رکھتے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اساتذہ انجمنوں کے تعاون اور انتظامیہ کی پشت پناہی کے نتیجے میں اس گھنائونے فعل کے مرتکب بیشتر اساتذہ کے خلاف تادیبی کاروائی کے بجائے ان کا دوسرے اسکولوں میں تبادلہ کردیا جاتا ہے جہاں ان میں سے اکثر دوبارہ بچوں کے جنسی استحصال کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اخبار نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ اساتذہ کے ہاتھوں بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے فوری قانون سازی کرے اور اس جرم کے مرتکب اساتذہ کے خلاف قانونی کاروائی کو یقینی بنائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: