اتوار کے روز افغانستان میں طالبان باغیوں نے کابل اور مشرقی افغانستان میں جو بےباکانہ اور ڈرامائی حملے کئے تھے۔ اُن کے عواقب پر مزید تبصرے اورتجزیئے سامنے آ رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ مغربی فوجی اور انٹلی جینس عہدہ داروں کو اعتراف ہے کہ یہ حملے بیک وقت جس چابک دستی سے کئے گئے ، اُن سے اُنہیں حیرت ہوئی تھی۔اور یہ ایک تشویش کی بات ہے کہ حقّانی نیٹ ورک جو پہلےمحض ایک جرائم پیشہ ٹولہ تھا۔ اب ایک بڑی عسکریت پسند طاقت بن کر اُبھرا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس میں شُبہ نہیں کہ مغربی عہد ہ داروں نے ان حملوں سے نمٹنے میں افغان کارکردگی کی تعریف کی تھی۔ اور ان حملوں کے سٹرٹیجک عواقب کو اہمیت نہ دی تھی۔ لیکن پرائیویٹ طور پر انہیں صدر کرزئی کےاس اعتراض سے اتفاق تھا کہ دن کے تقریباً دو بجے درجنوں حملہ آوروں کا، سینکڑوں میل کی مسافت طے کرنے کے بعد ایک ہی وقت میں سات مختلف اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہونا ہماری اور خاص طور پر نیٹو انٹلی جینس کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جس سے دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ آیا عسکریت پسند وں میں ایسے حملے کئی کئی مہینوں کے وقفے کےبعد کرنے کے بجائے بار بار کرنے کی صلاحیت آ گئی ہے ، او ر یہ کہ آیا افغان حکومت اپنے طور پر 2014 کے بعد بھی اس قسم کی سازشوں کو ناکام بنا سکے گی۔ جو مغربی فوجوں کے انخلاء کے لئے آخری سال ہے ۔جس کے بعد اُسے مغربی انٹلی جینس تک محدود رسائی حاصل ہوگی
اخبار نے حقّانی نیٹ ورک کو سرحدی جرائم پیشہ اور سمگلروں کا ٹولہ قرار دیتے ہوےئے کہاہے ، کہ حالیہ برسوں میں یہ ٹولہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کو ہلاک کرنے کے لئے حیرت انگیز حد تک بد نام ہو چکا ہے ، اخبار کہتا ہے کہ حقّانی نیٹ ورک کا پاکستانی طالبان سےگٹھ جوڑ ہے۔ جو پاکستانی فوج سے بر سر پیکار ہیں۔ اس سے پاک افغان سرحد کے آرپار سازشوں اور دوستیوں کے اس جال کا کُچھ اندازہ ہوتا ہے۔ افغان عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اتوار کے حملوں کا آغاز پاکستان سے ہوا، جہاں حقانی لیڈر چُھپے ہوئے ہیں۔ لیکن امریکی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ سابقہ حملوں کے برعکس اتوار کا حملہ پاکستان سے نہیں کیا گیا تھا۔ ایک بڑا سوال یہ ہےکہ اتوار کے حملہ آور کس طرح اتنے سارے ہتھیار ، اتنا سارا گولہ بارود ، اور راکٹ لے جانے اور اسے افغان حکومت اور اس کی سیکیورٹی تنصیبات کے قریب چھپانے میں کامیاب ہوئے ۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہء بھارت کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی روابط میں غیر معمولی پیش رفت کی توقّع کی جا رہی ہے۔ اخبار وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ باوجودیکہ دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ملکوں میں علاقائی۔ پانی کے مسائل اور دہشت گردی کی وجہ سے بُہت کشیدگی موجود ہے۔ دونوں ملک اپنے شہریوں، اس خطے اور باقیماندہ دنیاکے لئے بھاری اقتصادی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اخبار کہتا ہے ہےکہ دونوں ملکوں کے لیڈر اگر امن ، استحکام اور خوشحال مستقبل چاہتے ہیں تو اُن کے لئیے ان مقاصد کے حصول کے لئےآزادانہ تجارت بہترین راستہ ہے۔ جس کی مدد سے کاروبار میں بھاری اضافے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری ، آمدنیوں اور روزگار کے مواقع بڑھ جائیں گے۔جس سے دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کی کامیابی کا فکر شروع ہو جائےگا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی رپورٹ کے مطابق 2010 میں پاکستان اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم محض دو اعشاریہ دو تھا، جو بہت ہی کم ہے۔اس کے برعکس بنگلہ دیش کو پاکستان کی برآمدات کہیں زیادہ تھیں ۔ حالانکہ بنگلہ دیش کی معیشت بھارت کی معیشت کے چھ فی صد کے برابر ہے ، بھارت اور پاکستان اب ایک دوسرے سے تجارت بڑھانے کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں ۔ اور انہوں نے ویزوں کے اجراء،توانائی اور تجارتی محصولات پر تجویزیں وضع کرنے کے لئے ورکنگ گروپ بنائے ہیں۔ جس کا اخبار نے خیر مقدم کیا ہے۔
یہاں امریکہ میں صحافت، ادب اور موسیقی کے شعبوں کار ہائے نمایاں کے لئے سالانہ انعام دیے جاتے ہیں۔ پولِٹ زر پرائز نامی یہ انعام ایک ہنگری نژزاد امریکی جوزیف پولٹ زرنے 1917 میں قائم کیا تھاجسے نیو یارک کی کولمبیا یونی ورسٹی ہر سال تقسیم کر تی ہے۔ اس سال کے انعام پانے والوں میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور سی ایٹل ٹائمز شامل ہیں جنہیں انویس ٹی گے ٹِو یا تفتیشی صحافت کے لئے یہ انعٕام ملا۔ نیو یارک ٹایمز کو دو انعام ملے ۔ انعام پانے والوں میں اے ایف پی کا فوٹو جرنلسٹ مسعودحسینی شامل ہے۔اس کی انعام پانے والی تصویر میں افغانستان کی ایک درگاہ پر ایک خود کُش دہماکے کے بعد ایک لڑکی کو روتےہوئے دکھایا گیا ہے۔