رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: امریکی فورسز اور طالبان میں آخری معرکے کی تیاری


اخبار کہتا ہے کہ افغانستان مشرقی پہاڑی علاقہ جو کابل سے بھی قریب ہے اور اُن پاکستانی پہاڑوں کے بھی نزدیک ہے، جہاں طالبان کی پناہ گاہیں ہیں اب اس گیارہ سالہ جنگ کا آخری میدان کارزار بننے والاہے ۔

وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ موسم بہار میں ہونے والے تصادم کی تیاری کر رہا ہے ۔ اس کے لئے یہ لڑائی آخری ہوگی ۔ اور ا س کی حکمت عملی کابل کو بچانا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ افغانستان مشرقی پہاڑی علاقہ جو کابل سے بھی قریب ہے اور اُن پاکستانی پہاڑوں کے بھی نزدیک ہے، جہاں طالبان کی پناہ گاہیں ہیں اب اس گیارہ سالہ جنگ کا آخری میدان کارزار بننے والاہے ۔ جس میں امریکی فوجیں طالبان کے خلاف صف آرا ہونگیاور پہاڑوں پر برف پگھلنے کے ساتھ ہی یہ لڑائی شروع ہو جائےگی۔

اخبار نے سرکردہ امریکی کمانڈروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ باغی نوروز یعنی افغان سال نو کے دوران مشرق میں حملہ شروع کرنے والے ہیں ۔ یہ علاقہ دونوں باغیوں اور افغان حکومت کے لئے اہم ہے ۔ نیٹو کمانڈر جنرل ایلِن کے حوالے سے ا خبار کہتا ہے کہ متوقع باغی حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ اور اس کے اتّحادیوں نے دارالحکومت کے دفاع کے لئے ایک طبقہ وار منصوبہ تیار کر لیا ہے تاکہ باغیوں کو ہر قدم پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے ۔ جنرل ایلِن کی کمان میں اس وقت 23 ہزار امریکی فوجوں کے علاوہ فرانس پولینڈ اور دوسرے اتّحادیوں کی 7 ہزار فوجیں ہیں۔ اس وقت افغانستان میں کُل 90 ہزار امریکی فوجی ہیں جن میں سے 33 ہزار اکتوبر وطن واپس جا چُکے ہونگے ۔ سینئر فوجی عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ اگلے سا ل تک امریکی فوجوں کی تعداد صرف چار یا پانچ ہزار ر ہ جائےگی جن کے فرائض محض مشاورتی نوعیت کے ہونگے ۔

شکاگو ٹریبیون میں عالمی موسمی تبدیلی پر ایک مضمون میں معروف تجزیہ کار بِل پریس نےاس اہم مسلے پر امریکی سیاست دانوں کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ2006 میں جب سابق امریکی نائب صدر ایل گور نےتلخ حقیقت نامی اپنی دستاویزی فلم سے امریکی قوم کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اورموسم کی تبدیلی سے تباہ کُن نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا ۔ تو وہائٹ ہاؤس اور کانگریس سے اس کرّة ارض کو بچانے کے لئے آواز بُلند ہوئی تھی ۔ بلکہ 2008 میں یہ اُن بڑے مسائل میں شُمار کیا گیا تھاجس پر دونوں بڑی پارٹیوں کے صدارتی اُمّید وارں نے عہد کیا تھا کہ سنہ 2050 تک کاربن موناکسایئڈ کی گیس کو50 فی صد کی حد تک کم کیا جائے گا بلکہ ری پبلکن امید وا جان مکین65 فیصد کمی پر زور دیا تھا اورعالمی حرارتقومی سلامتی کا ایک مسلہ قرار دیا تھا۔ لیکن چھ سال گُزرنے کے بعد موسمی تبدیلی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ اور حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں ۔گلیشئیر غائب ہو رہے ہیں۔ سمندر کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن پچھلے چار سال کے دوران موسم سے متعلق ایک بھی سنجیدہ مسوّدہء قانون پرغور نہیں کیا گیا۔ صدر کے توانائی اور موسمی تبدیلی کے دفتر کی ڈئریکٹر کیرل براؤنر نے مایوس ہو کر استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ کسی اور کو نہیں مقرر کیا گیا۔

مضمون نگار کا کہنا ہے کہ بحر الکاہل کے ملک کی ری باتی نے، جو ایک جزیرہ ہے اپنی پُوری آبادی یعنی ایک لاکھ تین ہزار افراد کو فیجی منتقل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے کیونکہ موسمی تبدیلی کہ وجہ سے پورا جزیرہ سمندر میں ڈُوب جائے گا۔ خود امریکی ساحل کے نشیبی علاقوں میں رہنے والے 37 لاکھ باشندوں کو آنے والے عشروں کے دوراں سمندر کے لہرو ں سے سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے۔ اُدھر مونٹا نا سے لے کر فلوریڈا تک درجہء حرارت کے سینکڑوں ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں ۔ جب کی پوُری امریکی قوم گرم موسم کی لپیٹ میں ہے۔ اور یہ سب عالمی حرارت کا شاخسانہ ہے۔اور وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اور بھی خراب ہونگے۔۔

دنیا بھر میں موسم کی غیر معمولی تبدیلی پر ڈیٹرائیٹ فری پریس ایک اداریئے میں کہتا ہے کہ اب یہ کہنا مُشکل ہو گیا ہےکہ موسم بہار کا پہلا دِن جُون کے مہینے کے کسی دن کی طرح لگتا ہے۔ اور کیلنڈر کی رُوسے جو موسم سرما کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ وُہ اس سال سرے سے آیا ہی نہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ اس ریکارڈ توڑ گرمی کا سبب موسم کی واضح تبدیلی ہے۔ دنیا کے بعض علاقوٕں میں باقی جگہوں کے مقابلے میں زیادہ سخت سردی پڑی ۔ مثلاً یورپ میں موسم سرما میں خاص طور پر شدّت کی سردی پڑی ہے ۔

اخبار نے خود مشی گن ریاست میں موسم کی بُوالعجبیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو ہفتے قبل اس ریاست کے جزیرہ نُما علاقے میں برف کا زبر دست طُوفان آیا تھا۔ لیکن جُونہی درجہء حرارت70 فارن ہائیٹ سے تجاوز کر گیا تو یہ برف اِسی سُرعت کے ساتھ پگھل بھی گئی اور ًپچھلے سال اس علاقے میں مُوسلا دھار بارش کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا تھا جس کے لیئے یہ خطہ تیار ہی نہیں۔

XS
SM
MD
LG