تقریباً دو ماہ کے وقفے کے بعد پاکستان پر جو دو ڈرون حملے ہوئے ہیں۔ اس پر بالٹی مور سن ایک ادارئے میں کہتا ہے۔ کہ پاک امریکی تعلّقات کے لئے اس سے زیادہ نازک موقع نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے دو اتحادیوں کے مابین دُوری اور بڑھ سکتی ہے۔
اخبار کہتا ہے ٴکہ یہ شائید اتّفاقی امر ہے۔ کہ یہ حملے پاکستان میں سول اور فوجی اداروں کے درمیان خطرناک پھوٹ کی وجہ سے پیدا شدہ بڑھتے ہوئے اُس بُحران کے دوران کئے گئے۔ جو امریکہ کے نام پاکستانی حکومت کی طرف سے بھیجے ہوئے ایک خط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ مبیّنہ طور پر اس خط میں پاکستانی حکومت کو ایک ایسے وقت ، فوجی انقلا ب سے بچانے کی درخواست کی گئی تھی ۔ جب یہ فوج ، اوسامہ بن لادن کی امریکی فوجی کاروائی میں ہلاکت سے پیدا شدہ سبکی سے اپنے آپ کو سنبھالنے کے دور سے گذر رہی تھی۔یہ فوجی کاروائی پاکستانی فوج کو پیشگی اطلاع دئے بغیر کی گئی تھی اور اس کی وجہ سے پاکستانی فوجی جنرلوں میں پیدا شدہ برہمی اور بھی بڑھ گئی جب نومبر میں ایک سرحدی چوکی پر نیٹوکے ایک و فضائی حملے میں دو درجن پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔ اور پاکستانی جنرلوں نے نیٹو کی اس تحقیقات کو ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ افسوس ناک واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا ۔ اس پس منظر میں امریکی کمانڈروں نے خیر سگالی کے طور پر یہ ڈروں حملے اس امّید سے بند کئے تھے تاکہ دونوں فریقوں کا غصّہ ٹھنڈا ہونے کے لئے وقت دیا جائے۔ لیکن اخبار کے مطابق ایساہوا نہیں۔ اور اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر ڈروں حملے دوبارہ شروع ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سول قیادت پر فوجی لیڈروں کا اور زیادہ نزلہ گرے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ سرحد کی پاکستانی جانب عسکریت پسندوں پر حملے کرنے میں حق بجانب ہے ۔ خاص طور پر اس وجہ سے اگرپاکستانی فوج اس خطرے سے خود نمٹ نہ سکے یا نمٹنے کے لئے تیار نہ ہو ۔ اور اخبار کو اس میں کوئی شُبہ نہیں۔ کہ پاکستان میں جن طالبان اور القاعدہ جنگجؤوں نے اڈّے بنا رکھے ہیں۔ ان سے خود پاکستان کو بھی اتنا ہی خطرہ لاحق ہے جتنا کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجوں کو۔
امریکی عہدہ داروں کو احتیاط کا مشورہ دیتے ہوئے اخبار کہتاہے کہ انہیں پاکستان کی سول قیادت اور فوج کی باہمی چپقلش سے کنارہ کش رہنا چاہئے۔اخبار کا خیال ہے کہ اس چپقلش نے اگر طول پکڑا ۔تو یہ ان کوششوں بہت نقصان دہ ہوگا۔جو امریکہ افغانستان سے 2014 تک امریکی فوجوں کے انخلاء سے پہلے پاکستان کی ثالثی کے لئئے کر رہا ہے ۔ تاکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ہو سکیں ۔ ۔ لیکن پاکستان کی اندرونی صورت حال اس قدر دہماکہ خیز ہو گئی ہے ۔ کہ امریکہ شاید جلد ہی محسوس کرے گا کہ وہ اس خطے میں اثر انداز ہونے میں لاچار ہے
صدر اوبامہ نے وفاقی حکومت کے اخراجات میں کفائت کے خیال سے جن اقدامات کی تجویز رکھی ہے ان میں ایک یہ ہے کہ چھ بڑے وفاقی اداروں کو ضم کیا جائے۔ اس کو ڈینور پوسٹ نے دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے ۔کہ اس سے ایک ہزار اسامیاں ختم کو جائیں گی اور تین ارب ڈالر کی بچت ہو جائے گی ۔ چنانچہ ایسے میں جب امریکہ پر 150 کھرب ڈالر کا بھاری قرضہ ہے۔بعض ری پبلکنز کی طرف سے اس کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے ۔ اخبار کے خیال میں اس کی وجہ نومبر انتخابات ہی ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ صدر کو انتخابات تک کے درمیانی عرصے میں جیت ہی جیت والے اقدام کرنے کا سلیقہ آتاہے۔جس کے معنی اخبار کے مطابق یہ ہیں۔کہ جب وہ جیتتے ہیں ۔تب تو وہ بہر حال جیتتے ہی ہیں لیکن جب وہ ہارتے ہیں تب بھی جیت انہی کی ہوتی ہے وہ یوں کہ اگر کانگریس ان اداروں کو ضم کرنے کے خلاف ووٹ دیتی ہے۔ تو اُس کانگریس کے خلاف ان کے شکووں کی اُس فہرست میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔ جس کو وہ کچھ نہ کرنے والی کانگریس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں اگر یہ تجویز مان لی گئی تو پھر وہ اس کواپنے حکومت کے سائز کو کم کرنے کے اقدامات میں شامل کر سکیں گے۔ ویسے ری پبلکن اُن کو یہ طعنہ دیتے رہتے ہیں ۔کہ ان کے تحت حکومت کا سا ئیز بُہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اخبار کہتا ہے ۔ کہ حد سے زیادہ جانب داری کے اس دور میں اس بحث کا یہ اہم نکتہ ، نظر انداز ہو جاتا ہے ۔کہ اگر لاگت کو کم کرنا ملک کے لئے اچھا ہے ۔ تو حکومت کا کاروبار بہتر چلانے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ نظم و نسق