منگل کے روزتقریباً دو ماہ کے وقفے کےبعد جو ڈرون حملہ پاکستان کے اندر کیا گیا، اُس پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ کیا اِس کے یہ معنی لیے جائیں کہ دونوں اتحادیوں کے مابین تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
اخبار کی نظر میں بظاہر بہتری کےکوئی آثارنظر تو نہیں آ رہے۔ نومبر میں پاکستان کی سرحدی چوکی پر نیٹو کے تباہ کُن فضائی حملے کے بعد پاکستان نے جو انتقامی قدم اٹھائے تھے وہ اُن پر اب بھی قائم ہے، یعنی افغانستان میں نیٹو فوجوں کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں کے لیے پاکستان کا راستہ بند ہے اور امریکی ڈرون طیاروں کےلیے بلوچستان کا شمسی ہوائی اڈہ بھی بند ہے۔
لیکن، اخبار کا خیال ہے کہ پاکستان پر یہ تازہ ڈرون حملہ، جِس میں چار مشتبہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آنے کا غماز ہے اور دونوں ملکوں یا کم از کم دونوں فوجوں کے درمیان تعاون بحال ہونے کا۔
یہ واضح نہیں ہے کہ منگل کے ڈرون حملے کا مطلب یہ ہے کہ اِس قسم کے حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جِن اہداف کو نشانہ بنایا گیا وہ اِس قدر قیمتی تھے کہ اُنھیں ہاتھ سے نہ جانے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اخبار نے Heritageفونڈیشن اور پاک امریکی تعلقات کی ماہر لیزا کرٹِس کے حوالے سےبتایا ہے کہ پاکستان نے شاید خود امریکہ سے کہا ہو کہ تھوڑی تعداد میں ایسے ڈرون حملے جاری رکھے جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ کئی ماہ سے پاکستان میں ایک سیاسی بحران ہے اور وہاں کی طاقتور فوج کا ایک ایسی کمزور سول حکومت سے ٹکراؤ ہے جِس پر اُس کے صدر سمیت کرپشن کے الزامات ہیں۔
منگل کے روز یہ الزامات لگائے گئے کہ ملک کی سپریم کورٹ فوج کا ساتھ دے رہی ہے، جب اُس نے انتباہ کیا کہ اگر وزیرِ اعظم نے صدر زرداری کے خلاف کرپشن کے الزامات کے سلسلے میں کوئی کارروائی نہ کی، تو وہ وزیر اعظم کو برطرف کرسکتی ہے۔ عدالت کے اِس اعلان سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ یہ بحران انجام کو پہنچنے والا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی محکمہٴ خارجہ نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے احتراز کیا ہے۔ محکمے کی ترجمان وکٹوریا نُو لینڈ نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کہ امریکہ نے پاکستانی قیادت کے تمام طبقوں کے ساتھ وسیع رابطے برقرار رکھے ہیں۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ نے اوباما انتظامیہ کے سرکردہ عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کا منصوبہ ہے کہ اگلے ہفتے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو جمپ سٹارٹ کیا جائے، اور یہ کہ افغانستان کی دس سالہ جنگ کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی طرف پیش قدمی کے ٹھوس آثار نظر آرہے ہیں۔
اخبار کے بقول، افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی مارک گروس من، افغان صدر حامد کرزئی سے کابل میں ملاقات کر یں گے، تاکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے اُن کی منظوری حاصل کی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے مصالحت کو اپنی اعلیٰ ترجیحات میں شامل کر رکھا ہے اور وہ اُس کو لڑائی بند کرنے اور افغانستان کی جنگ کوختم کرنے کا سب سے زیادہ امکانی راستہ سمجھتا ہے اور صدر اوباما چاہتے ہیں کہ افغان 2014ء تک اپنی سیکیورٹی کا انتظام خود سنبھالیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے دو سال کے دوران امریکی فوجی دباؤ نے طالبان کے بعض لیڈروں کو اِس بات کا قائل کردیا ہے کہ امن مذاکرات کا وقت آگیا ہے، عہدے دار مانتے ہیں کہ ماضی میں طالبان سے رابطے کو کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں، جب کہ بہت سے امریکی عہدے داروں کو اِس پر شک ہے کہ موجودہ کوششیں بار آور ہوں گی۔
اخبار نے انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ کوشش کامیاب بھی ہو سکتی ہے اور ناکام بھی ،لیکن ذمہ داری اور انسانیت کا تقاضا ہے کہ یہ کوشش ضرور کی جائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: