’اومابا کا اولین کام روزگار کے مواقع پیدا کرنا ‘ کے عنوان سے’ شکاگو ٹربیون‘ میں سنڈیکٹڈ کالم نویس فرید ذکریا کا مضمون چھپا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹوں کو اِس پر مایوسی ہے کہ صدر اوباما نے قومی قرضے کی حد کے معاملے میں’ ٹی پارٹی ‘کی سب شرائط مان لیں اور اب اُن کو یہ شکایت ہے کہ صدر روزگار پیدا کرنے سے متعلق اپنی تجاویز میں حد سے زیادہ احتیاط برت رہے ہیں۔
لیکن، جیسا کہ مضمون نگار نے کہا ہے اوباما کو یہ احساس ہے کہ اُن کو دوبارہ منتخب کرانے میں سب سے اہم عنصر روزگار میں اضافہ کرنا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے اُنھیں ایسی تجاویز کی ضرورت ہے جو کانگریس سے منظور ہوسکیں، وہ نہیں جو ٹی وی پر اچھی لگیں۔
مضمون نگار کے بقول، ملک کو درپیش مسئلے کی سنگینی کے بارے میں لوگوں کا جو خیال ہے حقیقت میں اُس سےوہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔
ایک مقتدر تحقیقی ادارے کے مطابق پچھلے بیس سال کے دوران امریکہ کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں سنگین دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔
اِسی طرح 1990ء میں جو کساد بازاری شروع ہوئی تھی اُس میں روزگار کے مواقع واپس لانے میں 15ماہ لگ گئے تھے۔
2001ء میں جو کساد بازاری آئی تھی اس میں روزگار کے مواقع واپس آنے میں 35ماہ لگ گئے تھے اور اب رواں سال کے آغاز سے امریکہ کی مجموعی قومی پیدوار بحران سے پہلے کی سطح پر تو پہنچ چکی ہے لیکن مزدوروں کی تعداد میں 68لاکھ کی کمی آئی ہے۔
چناچہ روزگار کی سطح کساد بازاری سے پہلے کے وقت کے برابر آنے میں پانچ سال درکار ہوں گے۔
روزگار کے مواقع پر انفرمیشن ٹیکنالوجی جس طرح اثر انداز ہوئی ہے اُس پر مضمون نگار کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی 1980ء کی دہائی میں محض اعدادو شمار کو پروسیس کرتی تھی۔ لیکن، اب اس کا دائرہٴ کار اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ اُس نے کاروبار کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
صدر براک اوباما دس روز کی تعطیل پر آج کل Martha’s Vineyardکے صحت افزا مقام پر گزار رہے ہیں۔
’بوسٹن گلوب‘ اخبار کہتا ہے کہ بہت سے مبصرین نے جِن میں سے بیشتر قدامت پسند ہیں، ایک ایسے وقت میں جب ملک ایک بحران سے گزر رہا ہے ، صدر کے تعطیلات منانے پر اعتراض اٹھایا ہے۔
صدارتی نامزدگی کے ایک ری پبلیکن امیدوار مِٹ رامنی نے صدر کے واشنگٹن سے غیر حاضر ہونے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت جبکہ ملک کو اقتصادی اور بے روزگاری کا بحران درپیش ہے صدر کو کام پر جُتا رہنا چاہیئے تھا۔
لیکن، بوسٹن گلوب نے اِن معترضین سے پوچھا ہے کہ صدر اوباما وہائٹ ہاؤس میں برابر موجود رہتے تو اُن کے خیال میں وہ کیا حاصل کرلیتے جب کہ کانگریس پہلے ہی ایک ماہ کی تعطیل پر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر کا 10دن کی تعطیل کا حق بنتا ہےاور ویسے بھی اپنے حالیہ پیش رو صدور کے مقابلے میں وہ آرام کا کم وقت لیتے ہیں۔ اب تک اپنی صدارت کے دوران صدر اوباما صرف 61دِٕن تعطیل کے لےلیے ہیں۔ اِس کے مقابلے میں اپنی صدارت کی اسی مدت کے دوران جارج ڈبلیو بش ٹیکسس میں اپنی زمینوں پر 180روز کی تعطیلات گزار چکے تھے۔
اخبار کہتا ہے آج کل کے زہریلے سیاسی ماحول میں اوباما کا ہر فعل تنقید کا نشانہ بنتا ہے اور بہتر یہی ہے کہ وہ اور کانگریس کچھ وقت چُھٹیوں سے لطف اندوز ہونے میں گزاریں۔
صدر اوباما کی تعطیل پر یو ایس ٹوڈے یاد دلاتا ہے کہ John Adamsہی کے زمانے سے امریکی صدور کو تعطیلات پر جانے پر ہدفِ تنقید بنایا جاتا رہا ہے۔
اوباما تعطیل پر دونوں بائیں اور دائیں بازو کے ناقدین کی طرف سے تنقید ہو رہی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسٹاک مارکیٹ ڈانوا ڈول ہے ، یورپی معیشتیں سسک رہی ہیں اور امریکی بے روزگاری کی شرح 9 فی صد سے زیادہ ہے اوباما کی تعطیل کے لیے یہ وقت غلط ہے۔ لیکن، اِن ناقدین کو اخبار کا مشورہ ہے کہ ان بحرانوں کے درمیان صدر اگر کوئی وقت چھٹی گزارنے کے لیے نکال سکیں تو اُنھیں اِس کی اجازت ہونی چاہیئے۔
اخبار کہتا ہے کہ واقعہ یہ ہےکہ امریکی صدور کو چھٹیاں نصیب نہیں ہوتی ہیں کیونکہ وہ جہاں کہیں بھی جائیں دفتر اُن کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ بہر حال، جب وہ چھٹیوں پر جاتے ہیں تو باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔
ہیری ٹرومین کی Key Westمیں پوکر کھیلنے پر کڑی تنقید ہوتی تھی، جب کہ ڈوائیٹ آئزن ہاور کو بہت زیادہ گالف کھیلنے پر طعنہ دیا جاتا تھا اور رانلڈ ریگن پر یہ تہمت لگتی تھی کہ اُنھوں نے اپنی صدارت کے آٹھ سال میں سے ایک سالSanta Barbaraمیں اپنی زمینوں پر گزارا۔
چناچہ، سیاسی پنڈتوں کی طرف سے مین میخ نکالنےکے باجود عام پبلک کواِس کا احساس ہے کہ صدر بھی بیوی بچوں والے ہوتے ہیں جن کے ساتھ وقت گزارنے کا اُنھیں بھی حق حاصل ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: