اخبار لاس ویگاس سن نے اپنے ایک اداریے میں امریکی اراکین کانگریس، خاص طور پر ایک پاپولر مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والے ری پبلکنز کی توجہ حال ہی میں جاری کردہ رائے عامہ کے ان دو جائزوں کی طرف مبذول کرائی ہے جس سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکی عوام کانگریس کے موجودہ انداز کار پر خوش نہیں ہیں ۔ اخبار لکھتا ہے کہ یو ایس اے ٹوڈے ا ور گیلپ کے جائزے میں شامل صرف 56 فیصد جب کہ سی این این اور او آر سی انٹر نیشنل کے جاری کردہ جائزے میں شامل صرف 41 فیصد امریکیوں نے کہا کہ کانگریس کے موجودہ ارکان کو دوبارہ منتخب ہونا چاہیے، جو جائزوں کی تاریخ میں ایسا کہنے والوں کی کم ترین شرح ہے ۔اخبار لکھتا ہے کہ یہ ویسا ہی رد عمل ہے جیسا 1994، ،2006اور 2010 کے جائزوں میں سامنے آیا تھا۔ جب انتخابات کے نتیجے میں کانگریس میں اقتدار ایک جماعت سے دوسری کو منتقل ہو گیا تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ ری پبلکنز نے گزشتہ سال کے انتخابات میں ایوان کا کنٹرول جیتنے کےلیے اپنے حریف رفقائے کار کے خلاف جذبات پیدا کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا اور ایک مینڈیٹ حاصل کیا اور ٹی پارٹی کے انتہا پسند ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔لیکن اخبار لکھتا ہے کہ انہوں نے ووٹروں کے اصل منشا کود رست طور پر نہیں سمجھا جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں در اصل یہ پیغام بھیجا تھا کہ ان کی اولین اور سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ واشنگٹن کام کرے ۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ ری پبلکنز کے بے لچک مطالبوں کے نتیجے میں کانگریس میں ایک بڑا تعطل دیکھ کر انہیں اپنی مرضی پوری ہوتی نہیں دکھائی دی۔
ٓاگے چل کر اخبار لکھتا ہے کہ ایوان کے ری پبلکنز نے قرض کی حد سے متعلق مذاکرات میں جو طرز عمل اختیار کیا جائزوں کی اس شرح پر اس کا اثر حاوی دکھائی دیتا ہے اخبار لکھتا ہے کہ سی این این اور او آر سی کے جائزے کے مطابق ری پبلکن پارٹی کی مقبولیت میں گزشتہ ماہ میں 8 فیصد پوائنٹ جب کہ ٹی پارٹی کی مقبولیت میں چھ فیصد پوائنٹ تک کی کمی واقع ہوئی اور اب ری پبلکنز کو صرف 33 فیصد اور ٹی پارٹی کو 31 فیصد لوگ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت کی شرح میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ 47 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اخبار اپنا اداریہ سمیٹتے ہوئے لکھتا ہے کہ قوم نے قرض کی حد میں اضافے کی بحث کو دیکھا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ری پبلکنز کے مطالبوں سے قوم کو صرف نقصان ہی پہنچاہے ۔اخبار لکھتا ہے کہ ری پبلکنز کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں بہت مقبول ہیں اور اخبار مشورہ دیتا ہے کہ ری پبلکنز کو چاہیے کہ وہ صرف ٹی پارٹی کی ہی نہیں بلکہ اصل لوگوں کی بات سننا شروع کردیں ۔ کیوں کہ اخبار کے بقول رائے عامہ کے جائزوں کے یہ نتائج امریکہ کی معلوم تاریخ کے سب سے زیادہ ناراض ووٹروں کی جانب سے ایک پیشگی انتباہ کے غماز ہیں ۔
اور اخبار بوسٹن گلوب نے امریکی بجٹ خسارے میں کمی کی منصوبہ سازی کو اپنے ایک اداریے کا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں قائم کانگریس کی دو جماعتی سپر کمیٹی کو ملک کے مالیاتی مسائل حل کرنے میں ایک حقیقی پیش رفت کا موقع ملا ہے اور اس کے ارکان کو چاہیے کہ وہ اس مشکل موضوع کو خود بھی حقیقی معنوں میں سمجھیں اور قوم کو بھی اس کا فہم دے ۔ کیوں کہ اخبار لکھتا ہے کہ قرض کی حد میں اضافے کی حالیہ بحث سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ بہت سے امریکی حتیٰ کہ کانگریس کے کچھ ارکان بھی وفاقی بجٹ کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں۔ خاص طور پر اس بارے میں کہ بجٹ خسارہ کیسے پیدا ہوا اسے کیسے دور کیا جائے اخبار لکھتا ہے کہ یہ دونوں ہی پیچیدہ موضوعات ہیں اور یہ معاملات معیشت کی کساد بازاری کے نتیجے میں گزشتہ چند برسوں کے سالانہ خساروں میں پیدا ہونےوالے فرق کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ شکل اختیار کر گئے ہیں۔
اخبار اس ضمن میں کمیٹی کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ہر مکتب فکر کے ماہرین سے ان مسائل کی وجوہات ، ان کے ممکنہ حل اور ان پر عمل درآمد کے ممکنہ اثرات پر تفصیلی اور دو ٹوک بحث کرےاور ہر قسم کے ابہام کو دور کر کے کوئی درست اور واضح لائحہ عمل پیش کرے ۔
مثلاً اخبار لکھتا ہے کہ کمیٹی کو چاہیے کہ وہ اس بات کا پتہ چلائے کہ میڈی کییر، میڈی کیڈ او ر سوشل سیکیورٹی اور اندرون ملک ثوابدیدی اخرجات پر نئے ٹیکس نہ لگانے کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح صرف اعلیٰ آمدنی رکھنے والوں پر ٹیکس کے حامیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ واضح طور پر بتائیں کہ ان ٹیکسوں کی شرح کتنی زیادہ ہونی چاہیے تاکہ مڈل کلاس سے مزید محصول حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔اسی طرح مختلف قسم کے ٹیکسوں میں اضافے کے اثرات کا بھی جائزہ لینے اور ان پر تنقیدی انداز میں بحث کی ضرورت ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ کمیٹی کے ارکان، ماہرین یا سیاسی سر گرم کارکنوں کو بجٹ کے بارے میں اپنے مفروضوں اور مطمح نظر پر بحث و تنقید کي خلاف مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں کمیٹی کے ارکان کو بجٹ کے مسئلے کا کوئی مشترکہ حل تلاش کرنے کے لیے پہلے سے پیش کردہ تجاویز اور منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینے کا موقع ملے گا اور بجٹ کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ ووٹر سامنے آئیں گے۔
اور اخبار نیو یارک ٹائمز نے اوسامہ بن لادن کی تلاش کے موضوع پر ہالی ووڈ کے سونی پکچرز کی ایک بڑی فلم کی 12 اکتوبر 2012 کی ریلیز کے فیصلے پر اپنا ایک اداریہ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب جب کہ صدر اوباما کے لیے صدارتی مہم سخت تر شکل اختیار کر گئی ہےہالی ووڈ کی جانب سے انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل اس فلم کی ریلیز کا فیصلہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ صدر سے محبت کرنے والے ہالی ووڈ کی جانب سے صدر کے لیے ایک تحفہ ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ یہ فلم ڈائریکٹرکیتھرین بیگلو اور ٓسکر ایوارڈ یافتہ اسکرین رائٹر مارک بول تیار کر رہے ہیں اور اخبار لکھتا ہے کہ ان دونوں کو اطلاع کے مطابق تاریخ کے انتہائی خفیہ مشن تک اس انتظامیہ نے رسائی فراہم کی ہے جو خفیہ معلومات افشا کرنے کے سلسلے میں بش انتظامیہ سے بھی زیادہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے کی کوشش کر چکی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ سونی اسٹوڈیو نے فلم کی اس موقع پر ریلیز کے لیے کئی معقول جواز پیش کیے ہیں جن میں مارکیٹنگ کی حکمت عملی اور امریکی فوجیوں کی بہادری کو اجاگر کرنا شامل ہیں تاہم اخبار لکھتا ہے کہ ان فلمسازوں کی اعلیٰ سطحی رسائی سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ وائٹ ہاؤس نے صدر کے تاثر کر بہتر بنانے کے لیے آؤٹ سورسنگ کا سہارا لیا ہے ۔ تاہم اخبار صدر اوباما کی سیاسی حمایت میں کمی کے تناظر میں اسے ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی ایک اور علامت قرار دیتا ہے ۔