رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: امریکہ اب معافی مانگ ہی لے


'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے معافی مانگنے سے مسلسل انکار کے سبب پاکستانی یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ امریکہ نے سلالہ کی سرحدی چوکیوں پر حملہ جان بوجھ کر کیا تھا۔

اخبار 'بوسٹن گلوب' نے اوباما انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ اسے سلالہ چیک پوسٹ حملے پہ پاکستان سے معافی مانگ لینی چاہیے۔

اپنے ایک اداریے میں اخبار لکھتا ہے کہ سلالہ حملے کو سات ماہ گزرنے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات تاحال معمول پر نہیں آسکے۔ گو کہ واقعے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکی حکام اظہارِ افسوس کرچکے ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے معافی کا مطالبہ بدستور برقرار ہے۔

'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے معافی مانگنے سے مسلسل انکار کے سبب پاکستانی یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ امریکہ نے سلالہ کی سرحدی چوکیوں پر حملہ جان بوجھ کر کیا تھا۔

پاکستان نے واقعے کے ردِ عمل میں افغانستان جانے والی نیٹو رسد کے لیے اپنے راستے بند کر رکھے ہیں جس کے باعث امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں تعینات اپنی افواج کے لیے متبادل لیکن مہنگے راستوں کے ذریعے رسد بھیجنا پڑ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو رسد بند کرنے کے نتیجے میں امریکہ کو ماہانہ 100 ملین ڈالر اضافی خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔

'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ پاکستانی حکام واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے واقعے پر معافی مانگنے کے بعد نیٹو سپلائی بحال کردی جائے گی۔ لیکن اخبار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان موجود بداعتمادی سمیت بعض دیگر عوامل کی وجہ سے امریکہ معافی مانگنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ حالیہ مہینوں میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکی حکام نے پاکستان کو آگاہ کیا کہ وہ واقعے پر معافی مانگنے پر آمادہ ہیں لیکن امریکہ کے داخلی حالات کے پیشِ نظر ایسا نہ ہوسکا۔ اخبار کے مطابق امریکہ کے اس عمل کے نتیجے میں بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوئی ہے۔

'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ امریکہ معافی مانگنے میں جتنی زیادہ تاخیر کرے گا، اتنا ہی طرفین کے موقف میں سختی آتی جائے گی جس کا لامحالہ نقصان امریکہ کو ہوگا۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی غلطی پر معافی مانگنے سے انکار اس کی قوت نہیں بلکہ ڈھٹائی کا ثبوت ہوگا اور اس کے نتیجے میں افغان جنگ کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوجائے گا جو پہلے ہی امریکہ کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔

اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے مصر کی سیاسی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصری افواج اور عدلیہ کے حالیہ اقدامات سے مصر کی جمہوریت کی طرف پیش قدمی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

اپنے ایک ادریے میں اخبار لکھتا ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کی آمر حکومت کے پروردہ فوجی جنرل اور عدلیہ کے جج اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں جس کے نتیجے میں مصری معاشرہ مزید ابتری کا شکار ہوجائے گا۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ 16 ماہ قبل حسنی مبارک کی اقتدار سے رخصتی کے وقت ملک کے فوجی جنرلوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سال یکم جولائی تک اقتدار سول حکومت کو منتقل کردیں گے۔

اخبار کے مطابق مصری فوجی حکمرانوں کے نیت پر تو پہلے روز سے ہی شبہ ظاہر کیا جارہا تھا لیکن اب انہوں نے کھل کر اپنے اصل رنگ ڈھنگ دکھانے شروع کردیے ہیں۔

گزشتہ ہفتے مصر کی حکمران فوجی کونسل نے ملک میں کئی دہائیوں سے نافذ ہنگامی حالت کی مدت میں ایک بار پھر توسیع کردی تھی۔ اس اقدام کے ایک روز بعد مصر کی اعلیٰ ترین عدالت نے ملک کی نومنتخب پارلیمان کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

اخبار لکھتا ہے کہ فوجی جنرلوں نے 'بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا' کے مصداق عدالت کے فیصلے ترنت عمل کیا ہے اور نومنتخب اسمبلی کو رخصت کرکے قانون سازی کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فوجی جنرلوں نے ایک عبوری آئین بھی جاری کیا ہے جس کے ذریعے مسلح افواج اور وزیرِ دفاع پرسول حکومت کا کنٹرول ختم کردیا گیا ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ ان حالات کے تناظر میں ملک میں سیاسی اصلاحات کے خواہش مندوں کو اپنی صفیں دوبارہ منظم کرنا ہوں گی اور اپنے مقصد کے لیے متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔ اخبار لکھتا ہے کہ مصر میں میں سیاسی انقلاب کا سہرا عوام کے سر ہے اور اسے کامیاب بنانے کے لیے بھی انہیں ہی میدان میں آنا ہوگا۔

'نیو یارک ٹائمز'نے اوباما انتظامیہ کی جانب سے مصر کے لیے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی سالانہ فوجی امداد بحال کرنے کے حالیہ فیصلے پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے قبل از وقت قرار دیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ اوباما اتنظامیہ کو اپنی طویل خاموشی ختم کرکے مصری مظاہرین کی کھل کر حمایت کرنی چاہیے اور مصر کے فوجی حکمرانوں کو باور کرادینا چاہیے کہ اگر انہوں نے اقتدار سول حکومت کو منتقل نہ کیا تو انہیں امریکی امداد کے اربوں ڈالرز سے محروم ہونا پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG