اخبار ’کرسچین سائنس مانیٹر‘ نے اسرائیل کے لیے قیامِ امن کی ضرورت کو فوری اور اشد قرار دیتے ہوئے ، اِس کے بارے میں ایک ادارتی کالم شائع کیا ہے۔
اخبار کے مطابق، اسرائیل چاروں طرف سے مسائل میں گھِرا ہوا ہے اور اِس صورتِ حال میں دو ریاستوں پر مبنی حل ماضی کی نسبت آج خاصی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
اِس معاہدے کے تحت، نہ صرف اسرائیل کی سکیورٹی کی ضمانت حاصل ہو جائے گی بلکہ فلسطینیوں کو ایک خود مختار ملک مل جائے گا۔ تاہم، فی الحال اِس کے امکانات بہت زیادہ روشن نظر نہیں آتے۔
عرب ممالک یکے بعد دیگرے آمریت کے چنگل سے نکل کر جمہوریت کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں اور علاقے کے سب سے بڑے جمہوری ملک اسرائیل کو مختلف مسائل کا سامنا ہے۔
اخبار’ کرسچین سائنس مانیٹر‘ عرب اسرائیل تنازعات کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کا ہے۔
فلسطینی صدر عباس کا مؤقف ہے کہ اِس طرح اسرائیل فلسطینی امن سمجھوتے کے لیے مثبت امکانات پیدا ہوں گے اور فلسطینی مساوی بنیادوں پر اسرائیل سے مذاکرات کرسکیں گے، جب کہ امریکہ کا خیال ہے کہ فلسطین کو مملکت کا درجہ دینے کے لیے کوئی سیدھا اور مختصر راستا موجود نہیں ہے۔ اور اِس طرح، مذاکرات میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
امریکی کانگریس کی اکثریت اسرائیل نواز ہے اور اس کے ارکان کہتے ہیں کہ اگر اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی رکنیت تسلیم کرلی گئی تو فلسطینیوں کے لیے امریکی امداد ختم کردی جائے گی۔ دوسری طرف، اِس طرح کے اقدامات سے امریکہ اورعرب دنیا کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔
اِس سارے سیاسی تناظر میں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایسا امن سمجھوتا ہوجائے جس میں ایک دوسرے کے وجود اور سلامتی کی ضمانت دی گئی ہو۔
اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے افغانستان اور عراق میں مقرر کیے جانے والے پرائیویٹ کانٹریکٹرز کے مسئلے کو اپنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار نے امریکی کانگریس کے ایک مطالعاتی کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران 31سے 60ارب ڈالر تک اِن پرائیویٹ کانٹریکٹرز کو ادا کیے گئے ہیں۔ اِن پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا گیا اور اِن کی نگرانی کا طریقہٴ کار احسن طور پر نہ موجود تھا اور نہ اُس پر عمل کیا گیا۔
رپورٹ میں کئی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جِس میں رشوت ستانی اور اِن کنٹریکٹرز کی طرف سے ناقص کارکردگی کا تذکرہ ہے۔
اخبار نے آخر میں لکھا ہے کہ کانگریس کو چاہیئے کہ وہ کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کے نظام پر اپنی گرفت کو مضبوط بنائے اور کمیشن کی تجاویز کی روشنی میں حکومت اِن کنٹریکٹرز کے کام کی سخت نگرانی کرے۔
ایک اور امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایک ادارتی مضمون میں ایران کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ایرانی صدر محمود احمد نژاد اس ہفتے اقوامِٕ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں اور میڈیا کو توقع ہے کہ وہ ایران کے سیاسی عزائم پر روشنی ڈالیں گے۔
ظاہر ہے کہ وہ اس اہم موضوع کو نہیں چھیڑیں گے کہ اسلامی جمہوریہ آمرانہ طرزِ حکومت میں منقلب ہو چکی ہے۔
یہ واضح ہے کہ ایران جمہوری اصولوں پر کاربند نہیں ہے۔ ملک داخلی طور پر مختلف دباؤ کا شکار ہے، جب کہ بیرونی طور پر عرب دنیا میں جمہوریت کے حق میں بڑھتی ہوئی تحریکیں بھی اِس پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ عرب ممالک میں آزادی اور جمہوریت کے لیے جو تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں وہ اپنا دائرہ مکمل کریں گی ، یعنی تہران کی سڑکوں کی طرف اُن کی ایک بار پھر واپسی ہوگی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: