ترکی نے کہا ہےکہ ترک امدادی بحری جہاز پر گذشتہ سال کے مہلک چھاپےکے معاملے پر معذرت سے انکار پر، وہ اسرائیل کے ساتھ فوجی تجارت اور تعاون، اور بحیرہٴ روم کے پانیوں میں بحری نگرانی میں اضافےکے کام کو معطل کر رہا ہے۔
ترک وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان نے منگل کو کہا کہ انقرہ اسرائیل کے ساتھ ’تجارتی، فوجی اور دفاعی صنعت‘ سے متعلق تعلقات ’مکمل طور پر‘ معطل کر رہا ہے۔
بعدازاں، اُن کے دفتر نے وضاحت کی کہ مسٹر اردگان اسرائیل کے ساتھ دفاعی منصوبوں کی معطلی کی بات کررہے تھے نہ کہ مجموعی تجارت کی، جس کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس 3.5بلین ڈالر مالیت کی تجارت ہوئی۔
وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ مشرقی بحیرہٴ روم میں ترکی کےبحری جنگی جہازوں کی موجودگی زیادہ نمایاں ہو گی، جہاں مئی2010ء میں ’ماوی مارمرا ‘نامی ترکی کے بحری جہاز پر اسرائیل نے چھاپہ مارا تھا، ایسے میں جب فلسطینیوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد لے جاتے ہوئے جہاز نے غزہ کی پٹی کی طرف رُخ کیا۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے منگل کو کہا کہ سینئر امریکی سفارت کار، جِن میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی شامل ہیں، بحران کو ختم کرنے میں مدد دینےکی خاطر دونوں ملکوں سے رابطے میں ہیں۔ محکمے کی خاتون ترجمان وکٹوریا نولینڈ نے کہا کہ واشنگٹن کو اِس معاملے پر’ تشویش ‘ ہے اورامریکہ سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ’مثبت تعلقات‘ ضروری ہیں۔
غزہ کی ناکہ بندی پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے، تاکہ اُن عسکریت پسندوں تک اسلحہ نہ پہنچ پائے جوغزہ کو کنٹرول کرتے ہیں، اسرائیلی کمانڈوزنے ’ماوی مارمرا‘ پر دھاوا بول دیا تھا۔
جہاز پر ہونے والے مقابلے کے دوران نو سرگرم ترک کارکن ہلاک ہوئے، جِن میں سے ایک ترک نژاد امریکی تھا، جب کہ متعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔