صدراوباما کے عہد حکومت میں صحت کی نگہداشت کا جو نیا قانون منظورہوا تھا اُس کو نا فذ ہوئے اب دو سال ہو گئے ہیں اور یہ قانون ’اوباما کئیر‘ کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
اور جیسا کہ اخبار’ یُو ایس ایے ٹوڈے‘ کہتاہے، صدر اوباما کی یہی خواہش ہے کہ یہ قانون زیادہ مقبول ہو۔لیکن ،اِس قانون پر جتنے سنگین حملے کئے گئے ہیں اور اِس کی جس قدر بُرائی کی گئی ہے، اُس کے پیش ِنظر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ قانون اِس سے بھی زیادہ غیر مقبول کیوں نہیں ہے۔اور را ئے عامہ کے بیشتر جائزوں کے مطابق امریکی عوام کے درمیان اس کی افادیت کے بارے میں گہرا اختلاف ہے ۔ اِس کی حمائت کرنے والوں کی اِس رائے سے اس اخبار کو بھی اتّفاق ہے کہ صحت کی نگہداشت کے موجودہ طریق کار کے مُقابلے میں یہ قانون کہیں زیادہ بہتر ہے۔
مخالفت کرنے والوں میں ری پبلیکن صدارتی امّید وار شامل ہیں ، جن کا موقّف ہے کہ مُنتخب ہونےاور کانگریس میں اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں وہائٹ ہاؤس میں اُن کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ اِس قانون کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اگرچہ اس سے پہلے سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرنے والی ہے کہ آیا یہ قانون بچے گا بھی یا نہیں، جب اگلے ہفتےاس میں تین روز تک یہ غیر معمولی بحث ہوگی کہ آیا یہ قانون برقرار رہنا چاہئیےیا نہیں؟
اخبار نے اس بحث میں حصّہ لینے والے آئینی ماہرین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اُن حقائق کو ضرور پیش نظر رکھیں ۔ امریکہ کے صحت کی نگہداشت کا نظام کا شُمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اوباما کا نظام بچتا ہے یا نہیں ، موجودہ نظام کو بہر حال ختم ہو جانا چاہئیے ۔
ملک کے پانچ کروڑ افراد یعنی ہر چھ اشخاص میں سے ایک صحت کے بیمے سے محروم ہے۔
ناقدین کا ماننا ہے کہ حکومت جب صحت کی نگہداشت کی ذمّہ دارہوجائے گی تو امریکیوں کی زندگیوں اورآزادیوں میں فرق آ جائے گا۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ حقیقت میں اگر آپ کا آجر آپ کے بیمے کا ذمّہ دار ہو تو آپ کوئی فرق محسوس نہیں کریں گے۔ اور2014 ء میں اس قانون کے مکمّل طور پر نافذ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
’یُو ایس ایے ٹُوڈے‘ کہتا ہے کہ ماہرین قانون، عالموں اور صحافیوں کے ایک پینل نے پیش گوئی کی ہے کہ سپریم کورٹ اوباما کے قانون کوبرقرار رکھے گی ۔لیکن، یقین کے ساتھ کُچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ۔ البتہ، ضرورت اِس امر کی ہے کہ علاج پر اُٹھنے ولے خرچ میں کفائت ہو۔اوباما کیئر سے کم از لوگوں کے لئے طبّی امداد تو یقینی ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر اُٹھنے والے خرچ میں ہاتھ بٹانا بھی لازمی ہو جاتا ہے۔دوسری جانب، اِس پر سیاسی چپقلش بھی جاری ہے۔
میکسیکو کی سرحد سے امریکہ میں غیر قانونی داخلے کو روکنے کے لئے سیکیورٹی کے جو قدم اُٹھائے گئے ہیں ، وہ’ واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار کے مطابق موثّر ثابت ہو رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اری زونا کی طرف سے جو غیر ملکی امریکہ میں نا جائز طور پر داخل ہونے کوشش کرتے ہوئے صحرا میں ہلاک ہوتے ہیں اُن کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ سنہ 2004 میں سرحدی گشتی دستوں نے لگ بھگ چھ لاکھ غیر قانونی تار کین وطن اس ریاست کے دو سیکٹروں میں گرفتار کئے تھے۔
اُس سال سرحد عبور کرتے ہوئے 234 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ یعنی، ہر ایک لاکھ تارکین وطن کے ساتھ تقریباً چالیس افراد۔ پچھلے سال غیر سرحدی گارڈ ز کے ہاتھوں گرفتا ر ہونے والے ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کم ہو کر ایک لاکھ 29 ہزار ہو گئی تھی ۔لیکن183 انسانی لاشیں بھی برآمد کی گئی تھیں جِس کا تناسُب ایک لاکھ پر 140 سے زیادہ بنتا ہے ۔
ترک وطن کے اس پہلو پر بحث میں ایک مشکل یہ ہےکہ کسی کو نہیں معلوم کہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی مجموعی تعداد کتنی ہے ۔ سرحدی گارڈز نے یہ فامولہ وضع کر رکھا ہے کہ جہاں ایک غیر قانونی تارک وطن پکڑا جاتا ہے وہاں تین صفائی کے ساتھ ملک میں وارد ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
امریکہ میں پٹرول کے بڑھتے ہوئے دام پرنیو جرسی کے اخبار’ ڈیلی جرنل‘ میں ایک قاری رقمطراز ہے کہ پچھلے ایک ماہ میں 30 سینٹ فی گیلن اضافہ ہو گیاہے اور لوگ پیشگوئی کر رہے ہیں کہ موسم گر ما میں پٹرول کی قیمت 5 ، ڈالر فی گیلن تک پہنچ جائے گی۔قاری کے خیال میں اس پر جو ردّ عمل ہو رہا ہے وُہ غیر متوقع نہیں۔
ری پبلکن اس کے لئے صدر اوباما کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ انہوں نے کینیڈا سے پائپ لائن کی تعمیر رُکوا دی ۔ جب کہ صدر نےایران سے تیل کی سپلائی میں رخنہ آنے اور چین اور بھارت میں تیل کے استعمال میں بھاری اضافے کو اس صورت حال کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔
قاری نے دونون فریقوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پٹرول کے دام میں اضافے کے حق میں ہے ، کم از کم ایک مخصوص مدت تک کے لئے، تاکہ لوگ پٹرول پر انحصار کی عادت سے چھُٹکارا حاصل کر سکیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: