قاہرہ میں مصر کی نو منتخب پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا ہے۔ اور وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ افتتاحی اجلاس جو منظر پیش کر رہا تھا ۔ وہ پچھلے کئی عشروں کے بالکل برعکس تھا ۔ جب مصری عوام کو معلوم ہوتا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ انتہا درجے کی دھاندلی والے ایسے انتخابات کی پیداوار ہیں جو پولیس اور حکّام کی مدد سے ہوا کرتے تھے، اور جن میں یہ بات یقینی بنائی جاتی تھی ، کہ بر سر اقتدار پارٹی آسانی کے ساتھ کامیاب ہو ۔ اور اُس دور کے ارکان پارلیمنٹ جو کچھ کہتے یا کرتے تھے ۔اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا۔
لیکن نئی پارلیمنٹ کے چُناؤ کے بعد یہ سب کُچھ ختم ہو گیا ۔ یہ چناؤ 26 نومبر کو شروع ہوئے تھے اور چھ ہفتوں میں مکمّل ہوئے تھے۔ اور ان میں اخوان المسلمین کی سرکردگی میں اسلام پسندوں کو پارلیمنٹ کی 508 نشستوں میں سے 70 فی صد نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ ساڑھے آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں یہ سب سے زیادہ مُنضبط جماعت ہے۔جو اپنی 84 سالہ تاریخ میں سے بیشتر وقت غیر قانونی رہی۔ اور اسے ایک سال قبل اُس بغاوت کے بعد جائز پارٹی قرار دیا گیا۔ جس میں حسنی مبارک کی 30 سالہ آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اب یہ پارلیمنٹ ایک سو ارکان کا ایک پینل چنے گی جو ملک کے لئے ایک نیا آیئن مرتّب کرے گا۔ اس آئین پر جُون کے اواخر میں ریفرنڈم ہوگا ۔ جس کے بعد صدر کا انتخاب ہوگا اورفوجی حکمران اقتدار سے علیٰحدہ ہوجائیں گے
اخبار کہتاہے کہ ان قانون دانوں نے ایسے وقت اقتدا سنبھالا ہے۔جب مصر پُھوٹ اور نا اُمیدی کا شکار لگتا ہے۔ مبارک کے زوال کے بعد ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ عدم تحفظ کی وجہ سے سیاحت کو نقصان ہوا ہے اورغیر ملکی زر مبادلہ تیزی کے ساتھ گر گیا ہے۔
اخبار کہتاہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے اندر اور باہر ارکان کی تقسیم واضح تھی ۔لبرل اور آزاد خیال قانون دان پیلے رنگ کے سکارف پہنے ہوئے تھے اور ان میں سے بعض نے حلف لیتے ہوئےاپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کیا – ہم انقلاب جاری رکھیں گے یا شہیدوں کے خوں کے ساتھ وفاداری بر تیں گے۔ ایوان میں نئے ارکان کے لباس سے اسلامی رنگ واضح تھا۔ ان میں سے بہت سوں کی لمبی لمبی داڑھیاں تھیں ۔ اور وہ عمامے اور لمبے لمبے چوغےپہنے ہوئے تھے ۔
اخبار نیو یارک نیوز ڈے یورپی یونین کی اس بات پر تعریف کی ہے ، کہ امریکہ کی طرح اس نے بھی ایران کے تیل پر تعزیرات عائد کر دی ہیں اور اس کے مرکزی بنک کے تمام اثاثے منجمد کر دئے ہیں۔ اخبارنے اس امید کا اظہارکیا ہے کہ یورپ بھی، جو اس وقت مشکل اقتصادی دور سے گذر رہا ہے ایسا ہی قدم اٹھائےگا۔اخبار کہتا ہے کہ ساری دنیا پر یہ فر ض عائد ہوتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار ایران کے ہاتھ نہ آنے دے۔ جہاں پہلے ہی آٹھ ہزارسینٹری فُیوج افزودگی میں مصروف ہیں ۔ اور اس ماہ ایران یہ شیخی بگھاری ہے، کہ اس نے ایک پہاڑ کے اندر یورینیم کو افزودہ کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ کیا امریکہ اور یورپ کی تعزیرات کار گر ثابت ہو سکتی ہیں اس پر اخبار کہتا ہے، کہ یورپ ایرانی تیل کا 20 فی صد خریدتا ہے۔ اور یہ گاہک اس کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ ایران کے لئے تکلیف د ہ ہوگا۔
اری زونا ریاست میں یورینیم کے نکاسی پر20سال کے لئے جو پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اخبار اری زونا ری پبلک کہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں ریاست نباتات، چرندو پرند ، پانی کے وسائل اور مجموعی طور پر معیشت کو نقصان کے خطرے سے بچا لیا گیا ہے۔
اوباما انتظامیہ نے اپنے کئی سابق پیش رؤوں کی طرح یہ فیصلہ قدم اٹھایا۔اور عارضی اقتصادی فوائد کے لالچ میں آنے کے بجائے انہوں نے پائیدار اقدار کو بچانے کو ترجیح دی ۔ اخبار کہتا ہے کہ گرینڈ کینین شمالی اری زوناکے لئےتقریباً ایک صدی سے اقتصادی انجن ثابت ہوا ہے۔جو سالانہ 70 کروڑ ڈالر کے مساوی محصول اور روزگار فراہم کرتا ہے