رسائی کے لنکس

مارٹن لوتھر کنگ یادگار کی تقریب رونمائی منسوخ


مارٹن لوتھر کنگ یادگار کی تقریب رونمائی منسوخ
مارٹن لوتھر کنگ یادگار کی تقریب رونمائی منسوخ

28اگست 1963ء کو ڈاکٹر کنگ نے جو خواب دیکھا تھا اور جس نے کروڑوں امریکی عوام کو دعوت ِ عمل دی تھی وہ خواب 48سال سے شرمندہٴ تعبیر ہو رہا ہے اور آنے والے برسوں میں یہ عمل جاری رہے گا: یو ایس اے ٹوڈے

شہری آزادیوں کے معروف افریقی امریکی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ کا جو یادگار مجسمہ یہاں واشنگٹن کے مال پر تعمیر کیا گیا ہے اتوار کو صدر براک اوباما کے ہاتھوں اُس کو معنون کرنے کی تقریب شہر میں آنے والی آندھی کے پیشِ نظر ملتوی کردی گئی ہے۔

ایک اداریے میں اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ 30فٹ لمبا یہ مجسمہ قومی مال میں ایک اعلیٰ مقام پر نصب ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ 28اگست 1963ء کو ڈاکٹر کنگ نے جو خواب دیکھا تھا اور جس نے کروڑوں امریکی عوام کو دعوت ِ عمل دی تھی وہ خواب 48سال سے شرمندہٴ تعبیر ہو رہا ہے اور آنے والے برسوں میں یہ عمل جاری رہے گا۔

کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے وہ کوئی معمولی نوعیت کی ہے۔

براک اوباما پہلے افریقی امریکی صدر ہیں جنھوں نے 2008ء کے صدارتی انتخابات میں 28ریاستوں میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جو 1963ء کے امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب الاباما کے گورنر جارج والس نے یونیورسٹی آف الاباما کا دروازہ روک رکھا تھا تاکہ کوئی سیاہ فام طالبِ علم اس میں داخل نہ ہوسکے۔

اخبار کہتا ہے آج یہ عالم ہے کہ امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے افریقی امریکی بھاری تعداد میں فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں۔

سنہ 2009میں کالج کی ڈگری حاصل کرنے والے سیاہ فام طلبہ کی تعداد ایک لاکھ چھپن ہزار تھی۔ 1977ء میں یہ تعداد صرف 59000تھی۔ اِس وقت امریکی کانگریس میں 44ارکان افریقی امریکی ہیں۔ پورے ملک میں ریاستی اور مقامی عہدہ داروں میں افریقی امریکیوں کی تعداد ساڑھے دس ہزار ہے جو 1970ء کے مقابلے میں سات گنا زیادہ ہے۔

سیاہ فام لوگ بڑی بڑی کارپوریشنیں چلا رہے ہیں اور ایسے افریقی امریکی بچے بھی ہیں جو دوسروں کے لیے مثال بن کر ابھرے ہیں جیسے کولن پاول، کانڈالیزا رائس، ڈینر ل واشنگٹن اور اوپرا وِمفری۔

دو امریکی کوہ پیما Shane BauerاورJoshua Fattalایران کے ایک بدنام ِ جہاں قید خانے میں 755دِن گزار چکے ہیں۔ اس پر ایک اداریے میں نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ان بچاروں کو اتنے عرصے قید میں رکھنا تو کُجا اُنھیں سرے سے گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیئے تھا۔

اِس وقت جب دنیائے اسلام رمضان المبارک کے مہینے کی خوشیاں منا رہی ہے ایرانی حکام کو رحم اور انصاف کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنھیں واپس گھر جانے کی اجازت دینی چاہیئے تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ بار بار ایرانی عہدہ دار ایسے اشارے دیتے رہتے ہیں کہ اُنھیں رہا کر دیا جائے گا، بلکہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ اُن پر مقدمہ اس انداز سے چلے گا کہ بالآخر اُنھیں رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن ہوا اِس کے برعکس اور اُنھیں ایران میں ناجائز طور پر داخل ہونے اور جاسوسی کے الزام میں آٹھ آٹھ سال کی سزا سنائی گئی ہے۔

اخبار نے اس کی جزوی وجہ واشنگٹن اور تہران کے مابین تعلقات کی خرابی بتائی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی لگتی ہے کہ ایرانی قیادت کے مختلف دھڑوں کے مابین اندرونی چپقلش ہے اور حکومت کا کاروبار تعطل کا شکار ہے۔ اس کے باوجود اخبار کا خیال ہے کہ آیت اللہ علی خامنئی کو اُنھیں رہا کرنے کا اختیار ہے اور اُنھیں اِن دونوں کو چھوڑ دینا چاہیئے۔

نیو یارک کا روزنامہ’ نیوزڈے‘ سوشیل میڈیا کی کرامات پر ایک اداریے میں کہتا ہے کہ آٹھ ماہ قبل دنیائے عرب میں عوامی تحریک کا آغاز اسی میڈیا کی مرہونِ منت ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ مغرب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے انٹرنیٹ تک رسائی اور اس سے چلنے والے مواصلاتی آلوں مثلاً Facebok, Twitterاور Black Berryفون کو ایک نئے انسانی حق کے طور پر روشناس کرایا، لیکن جب غنڈوں نے لند ن میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا توپھر برطانوی حکومت نے ان آلوں کو ایسے خطرناک ہتھیار قرار دیا جِن پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

اخبار کہتا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے، ٹیکنالوجی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ایک طرف اگر اس کی بدولت کروڑوں عوام کو آزادی کا مطالبہ کرنے کی تحریک ہوتی ہے تو دوسری طرف سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جو اس سے دنگہ فساد کرنے کا سبق لیتے ہیں۔

اخبار کا سوال ہے کہ کیا نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ قواعد بدل جائیں گے کہ حکومت کِن حالات میں آزادیٴ اظہار اور اجتماع پر قدغن لگا سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG