امریکہ میں کرسمس اور تعطیلات کے موسم میں، اس مرتبہ بھی، خریداری اور اخراجات کا سلسلہ ویسا ہی دیکھنے میں آیا، جیسا کہ ہمیشہ سے دیکھنےمیں آتا رہا ہے، بلکہ، کچھ اندازوں کے مطابق، تحائف اور گھروں کے لیے خریداری کے لیے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی۔
اور، ایک ایسے ملک میں جہاں بے روزگاری کی شرح پریشان کن ہے اور جہاں ملک کے قرضے اس سال صرف اکتوبر کےمہینےمیں 366 ملین ڈالر تک پہنچے، قرض لےکر خوشیاں منانے کی امریکی روایت پر بدستورعمل جاری رہا۔
اخبار ’ڈیلی نیوز‘ نے اِس موضوع پر اپنا ایک اداریہ تحریر کرتے ہوئے دوستوں اور احباب کے لیے کریڈٹ کارڈ پر تحائف کی خریداری پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ: کیا ہم نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا کہ جب ہم پیسہ کمانے سے پہلے اسے خرچ کرتے ہیں ، یعنی قرض لے کر خرچ کرتے ہیں، تو کیا ہوتا ہے ؟اور، کیا کسی کو یہ یاد نہیں رہا کہ ہمارے اِسی رویے اور وطیرے نے ہمیں قرض کے موجودہ بحران تک پہنچایا ہے؟
اخبار لکھتا ہے کہ کرسمس یا تعطیلات کی خوشیوں کے لیے اپنے بچوں کے لیے ضروری خریداری ایک مناسب طرز ِعمل ہے اور کرسمس یا تعطیلات پر ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی لوگوں کی خریداریاں معیشت پر ہمیشہ اچھا اثر ڈالتی ہیں ۔ لیکن، قرض کے اس بڑے بحران اور امریکی معیشت کے انحطاط کی موجودہ نہج نے امریکی لوگوں کو یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ ایک قوم کی حیثیت سے اس مرتبہ تعطیلات کے موسم کا مفہوم نئے سرے سے متعین کرتے، اور من حیث القوم، یہ غور کرتے کہ کیا ہم نے قرض اور موجودہ مالیاتی بحران سے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا؟
اور، کیا امریکی قوم قرض اور اپنی تاریخ کے اس تاریک ترین معاشی دور سے نکل کر 1950ء کی دہائی کے اس سنہری دور کو واپس لا سکتی ہے جب معیشت ترقی کررہی تھی، روزگار میں اضافہ ہو رہا تھا اور امریکی گھرانے آسودگی کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ اور کیا امریکی قوم نے ماضی کے تجربات سے واقعی کچھ سیکھا ہے؟
اخبار’ شکاگو ٹریبیون‘ نےاپنے ایک اداریے میں اس سوال کا جواب دیا ہے۔ لیکن کچھ وکھرے انداز سے ۔
اخبار لکھتا ہےکہ امریکی قوم نے قرض کے بحران سے ابھی تک کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو، لیکن اُس نے ایک شعبے میں ضرور بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ ہے امن عامہ اور جرائم کے سد باب کا شعبہ، جِس میں وہ 1950ء کی دہائی کے سنہری دور کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔
اخبار ایف بی آئی کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے حوالے سے لکھتا ہےکہ امریکہ میں 2011 ء کے پہلے چھ ماہ میں پر تشدد جرائم کی شرح میں 6٫4 فیصد ، املاک سے متعلق جرائم میں 3٫7 ، قتل کی وارداتوں میں 5٫7 ریپ کی وارداتوں میں 5٫1 اور چوری کی وارداتوں میں 7٫7 فیصد کمی ہوئی ہے اور ان جرائم کی شرح میں کمی کا رجحان جاری ہے ۔
اخبارلکھتا ہے کہ مجرموں کو زیادہ سے زیادہ جیل میں رکھنا اور پولیس کی نفری میں اضافہ اس کی بظاہر وجہ ہو سکتے ہیں لیکن تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت جیلوں میں بند کیے جانے والوں کی نسبت وہاں سے رہا کیے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ پولیس کی نفری میں بھی اب اضافہ دیکھنےمیں نہیں آرہا ۔
اِسی طرح، اخبار لکھتا ہے کہ کچھ ماہرین اسقاط حمل کو قانونی شکل دینے کے سنہ1973 کے قانون کے نفاذ کو بھی جرائم میں کمی کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں، جِس کے نتیجے میں بہت سی غریب ، نوجوان اور غیر شادی شدہ یا ان تینوں قسم کی خواتین کے ہاں بہت سے ایسے بچوں کی پیدائش میں کمی ہوئی جو نا مساعد حالات میں پروان چڑھنے کے باعث جرائم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
تاہم، اخبار لکھتا ہے کہ اِس قانون کو بھی جرائم کی شرح میں کمی کی واحد وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ ایسا دور بھی آیا ہے جب اسقاط حمل کی شرح میں کمی کے باوجود جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ امریکہ امن اور سیفٹی کے اعتبار سے تاریخ کے اس سنہری ترین دور تک کیسے پہنچا ؟
اخبار لکھتا ہے کہ، ’ ہم نہیں جانتے کہ ایسا کیسے ہوا؟ تاہم، اِس وقت اگرہم یہ تعین نہ کر سکیں کہ ہمیں اس محفوظ معاشرے کا تحفہ کیسے حاصل ہوا تو کیوں نہ ہم اسے کرسمس کا کوئی تحفہ یا معجزہ قرار دے کر ا پنے دل کو مطمئن کر لیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے ننھے بچوں کو کرسمس کے موقع پر ان کی پسند کے تحائف دیتے ہوئے انہیں سانتا کلاز کی روایتی کہانی سنا کر مطمئن کر دیتے ہیں ۔ لیکن کیا انٹر نیٹ اور جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے دور کے بچوں کو سانتا کلاز کی روایتی کہانی سنا کر مطمئن کیا جا سکتا ہے، جو ہر بات کو منطقی اعتبار سے سمجھتے اور سیکھتے ہیں ۔یہ ہے وہ نکتہ جسے اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے اپنے ایک اداریے کا موضوع بنایا ہے۔
اخبار نےایک چھ سالہ بچی کلوئی کا حوالہ دیا ہے جو کرسمس کے موقع پر اپنے والدین کے ساتھ پہلی بار ایک شاپنگ مال میں اپنے پسندیدہ تحائف کی فہرست کرسمس کے روایتی کردار سانتا کلاز کو دینے کے بعد جب اس امید کے ساتھ مال سے باہر نکلی کہ اب سانتا کلاز اس کے تحائف لے کر اس کے گھر پہنچا نے والا ہے تو اس نے سڑک پر ایک اور سانتا کلاز دیکھا۔ مال پر موجود سانتا کلاز دبلا اور قدرے مختلف تھا ،جِس پر اُس نے اپنے والدین سے سانتا کلاز کی کہانی کے بارے میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔
اخبار لکھتا ہے کہ بچی کسی صورت یہ یقین کرنے پر تیار نہ ہوئی کہ مال کے اندر یا باہر اُس نے جو سانتا کلاز دیکھے تھے وہ دو الگ الگ نہیں بلکہ وہی ایک روایتی سانتا کلاز تھا جو ہر جگہ ہر بچے کو ایک ہی رات میں اُن کی پسند کے تمام تحائف پہنچا سکتا ہے ۔
اخبار سانتا کلاز کی روایت کو ایک خوبصورت روایت قرار دیتے ہوئے مشورہ دیتا ہے کہ بچوں کو کسی خوبصورت خیالی دنیا کی کہانی سنانے اور انہیں کرسمس کے موقع پر ایک سحر انگیز دنیا میں مگن اور مسرور رکھنے اورا ُنہیں کسی کنفیوژن سے اور والدین کو اُن کے سوالوں کی بوچھاڑ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ شاپنگ مالز میں سانتا کلاز کاروپ دھارنے والے کردار جب مال سے باہر سڑکوں پر نکلیں تواپنے اصل لباس میں ملبوس ہوں۔ تاکہ، کلوئی جیسے ذہین بچوں کو کنفیوز کیے بغیر اُنہیں اپنے بچپن کا ایک خوبصورت دور ایک خوبصورت روایت کے سحر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارنے کا موقع فراہم ہو سکے اور بچوں کےلیے کرسمس اورتعطیلات کے موقع پر ایک خوبصورت روایتی تفریح کا سلسلہ جاری رکھاجا سکے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: