As good as It Getsعنوان ہےاخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک اداریے کا۔
اخبار لکھتا ہےکہ سال 2011ء کا اختتام جِن اقتصادی اعشاریوں پر ہوا ہے وہ کم از کم اس سے بہتر تھے جن پر سال گزشتہ کی شروعات ہوئی تھی ۔ اسی طرح بے روزگاری کے حوالے سے اعدادوشمار بھی ظاہر کررہے ہیں کہ وہ سال کی بلند ترین سطح پر نہیں ہیں۔ لیکن، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بہتری کے یہ آثار سال 2012ء میں بھی جاری و ساری رہیں گے؟
اِس بارے میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ ہم چاہیں گے کہ ایسا ہی ہو مگر جب تک منصوبے ساز حیران کُن حد تک خوش قسمت نہ ہوں یا وہ اپنے کام میں ماہر نہ ہوں ایسا ممکن نہ ہو گا۔ کیونکہ، اخبار کے مطابق، جب ’کانگریس‘ کا خیال ذہن میں آتا ہے تو جواب نفی میں ملتا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ دسمبر کے آخر میں جو اعدادوشمار جاری کیے گئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ماہرینِ معاشیات سال 2011 ءکی آخری سہ ماہی میں شرح نمو میں 3 فیصد جبکہ آئندہ تین سہ ماہیوں کے لیے 1.2 فیصد اضافے کی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اِسی طرح، ہالیڈے سیزن یا کرسمس کی چھٹیوں کے دنوں میں اگرصارفین نے کھل کر خریداری کی ہے تو اس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی تھی نہ کہ تنخواہوں یا آمدن میں اضافہ۔
اخبار لکھتا ہے کہ سال 2011 ءاور اس سے پہلے حکومت کی جانب سے معیشت کی رفتار تیز بنانے کے لیے حکومت نے مالی اداروں کی معاونت کی تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، لیکن ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی بجٹ معاملات پر حالیہ بحث کے تناظر میں کواکب بتاتے ہیں کہ آگے چل کر ایسا کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن، اچھی بات یہ ہے کہ صدر براک اوباما بدستور اپنے اقتصادی ایجنڈے پر قائم ہیں، جس کا مقصد متوسط طبقے کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اور ری پبلکنز میں سے بھی بعض راہنما یہ ادراک رکھتے ہیں کہ بجٹ کٹوتیوں کا ان کا متواتر مطالبہ سیاسی قیمت کا متقاضی ہو سکتا ہے۔
Goodbye Iraq موضوع ہے اخبار ’نیویارک پوسٹ ‘کے ایک اداریے کا۔ اخبارلکھتا ہے کہ صدر براک اوباما نےعراق سے فوجی انخلا کے ساتھ ایک ایسا وعدہ پورا کردیا ہے، جواُنہوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ لیکن، عراق سے امریکی فوجوں کے نکلتے ہی تششدد کی لہر در آئی ہے۔ انخلا کے صرف 100 گھنٹے بعد عراق میں خودکش حملوں سمیت درجن بھر دھماکے ہوئےجن میں کم وبیش 63 افراد ہلاک اور 194 زخمی ہو گئے۔
اِن حملوں کا طریقہ ٴکار وہی تھا جوعراق میں القاعدہ کےدہشتگرد اختیار کرتے رہے ہیں۔ نہ صرف تشدد بلکہ سیاسی عدم استحکام نے بھی سراٹھایا ہے جو ملک میں خانہ جنگی کے خدشات پیدا کر رہا ہے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے نائب صدرطارق الہاشمی کی گرفتاری کے احکامات جاری کرتے ہوئے اِن خدشات کو ہوا دی ہے۔ اِسی طرح اُن کا یہ بیان بھی غور طلب ہے جس میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٕمخالف سنیوں کی طرف سے ایک خودمختار علاقے کی حصول کی کوشش کی گئی تو وہ غیر مستحکم اتحادی حکومت کوختم کر دیں گے اور خون کی ندیاں بہیں گی۔
اِن حالات میں، اخبار لکھتا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما اپنی جگہ بے شک یہ کہتے رہیں کہ وہ ایک خودمختار اور جمہوری عراق چھوڑ کر آ رہے ہیں، ان کی جانب سے فوجوں کو نکالنے کے حوالے سے سوالات اپنی جگہ موجود رہیں گے کہ انہوں نے حالات کے استحکام کے لیے امریکی فوجوں کے عراق کے اندر قیام میں توسیع پر بات چیت کیوں نہ کی جس پر کہ فوجی راہنما زور بھی دے رہے تھے؟
وائٹ ہاوس اگرچہ یہ سمجھتا ہے کہ سیاسی تنزلی اور تشدد مختلف اوقات میں عراق میں در آتا رہا ہے اور ترجمان جے کارنی یہ فرماتے ہیں کہ وہاں کبھی ایک قدم آگے تو کبھی پیچھے والی صورتحال معمول کا حصہ ہے۔
اخبار حوالہ دیتا ہے کہ طارق الہاشمی کردستان کے خودمختار علاقے میں جا چکے ہیں اور وہ وزیراعظم نوری المالکی کو اشتعال دلا رہے ہیں کہ وہ دھمکی دیں کہ کردوں نے اگر ہاشمی کو پناہ دی تو مسائل پیدا ہوں گے۔
انہوں نے ایسی فائلیں بھی جاری کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، جو بقول اُن کے، اُن کے مخالفین کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ عراق میں اب تششدد ہو یا سیاسی ابتری، وہاں استحکام کے لیے کوئی امریکی موجود نہیں ہے۔
اِس پس ِمنظر میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کہ آخر صدربراک اوباما نے عراق کو ایسے میں کیوں خالی کر دیا جب یہ ملک اپنی حفاظت کرنے اور معاملات حکومت خود سنبھالنے کے قابل نہیں تھا؟
اخبار کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے گا کہ صدراوباما کا فوجوں کو نکالنے کا فیصلہ غیردانشمندانہ تھا اوراس کی بنیاد اضح طور پر سیاست مفادات پر تھی۔ کیا عراق میں امریکہ کا مشن مکمل ہو گیا؟ اخبار کے مطابق شاید ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔
اخبار’ سیاٹل ٹائمز‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان ہے: The New Year could ring in a good year for conservatives جس میں مضمون نگار، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، استدلال پیش کرتا ہے کہ امریکہ میں درپیش اندرونی مسائل ثابت کرتے ہیں کہ سال 2012 ءکے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کو فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ بہت مستند ہیں یا ان کے راہنما ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہیں، بلکہ موجودہ انتظامیہ کی ناکامیاں، ریپبلکنز کی کامیابی کا ایک سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر براک اوباما کا اب بھی مضبوط پہلو نوجوان ووٹرز ہیں اور وہ آج کل انہی پر توجہ دیتے نظر بھی آتے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: