اخبار'کرسچن سائنس مانیٹر' کا کہنا ہےکہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغانستان کےدوبارہ طالبان کی جھولی میں جا گرنے کا امکان موجود نہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ سو سالہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قابلِ ذکر بیرونی مدد کے بغیر افغانستان میں کوئی بغاوت کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اخبار میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق سابق افغان بادشاہ شاہ شجاع نے 1832ء میں تاجِ برطانیہ کی مدد سے کابل کا قبضہ حاصل کیا تھا۔ اپریل 1978ء میں افغان صدر دائود کی حکومت کے خلاف کمیونسٹ تنظیموں "خلق" اور "پرچم" کی مسلح بغاوت کی پشت پر روس موجود تھا جس کے بعد سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئی تھیں۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' کےمضمون نگار کے بقول سوویت روس کے خلاف ایک عشرے طویل جہاد بھی در اصل امریکی اسلحے، سعودی پیسے اور پاکستانی تربیت اور امداد کی بدولت ہی کامیابی سے ہم کنار ہوا تھا۔
اخبارلکھتا ہے کہ اس وقت غیر ملکی افواج کے خلاف افغانستان میں جو قوتیں برسرِ پیکار ہیں ان میں طالبان، حکمت یار کی حزبِ اسلامی کے گھاگ جنگجو، 'القاعدہ' کے مہم جو جوان اور پاکستانی علاقے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر شامل ہیں۔
مضمون نگار کےمطابق ان تمام مسلح دھڑوں کی جنگجویانہ صلاحیتیں جانی پہچانی ہیں اور انہوں نے افغانستان کے ایک وسیع علاقے کو امدادی اداروں اور افغان سیکیورٹی فورسز کےلیے 'نو گو ایریا' بنا رکھا ہے۔
لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ تمام دھڑے قبائلی اور جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم ہیں اور اسی لیے ان کی پورے افغانستان پر قبضہ کرنے اور افغان شہروں پر حکومت کرنے کی صلاحیت مشتبہ ہے۔
'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ اگر نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بھی افغان نیشنل آرمی محض اپنی موجودہ صلاحیت ہی برقرار رکھے اور اپنے اڈوں میں موجود رہے تو طالبان کی پیش رفت کو روکا جاسکتا ہے ۔
اخبار کے مضمون نگارکے بقول افغان فوج اتنی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ بندوبستی علاقوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ طالبان کو ان دور دراز دیہات تک محدود رکھ سکے جہاں وہ گزشتہ ایک دہائی سے اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔
لیکن 'کرسچن سائنس مانیٹر' کے مطابق اس کےلیے ضروری ہے کہ نیٹو انخلا کے بعد افغان نیشنل آرمی کو بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچایا جائے جس کے لیے افغانستان میں ایک طاقت ور سیاسی قیادت کا وجود ضروری ہے۔
اخبار 'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ یورپی ممالک ایک بار پھر اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ یورپی معیشتوں کو درپیش قرضوں کا بحران صرف معاشی سرگرمیوں کو تیز کرکے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔
اپنے ایک اداریے میں اخبار نے لکھا ہے کہ بچت کے اقدامات کے ذریعے بحران پر قابو پانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں اورا ن کے نتیجے میں یورپی ممالک کی معاشی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
اخبارلکھتا ہے کہ یورپی رہنمائوں کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ قرضوں کے بحران کے حل کے لیے ایسے اقدامات کرنا ضروری ہیں جن کے ذریعے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مطابق اگر یورپی رہنمائوں نے اس حقیقت کا جلد ادراک نہ کیا تو یورپی ممالک اور باقی دنیا کو اس کے تباہ کن نتائج بھگتنے ہوں گے۔
اخبار 'فلاڈیلفیا انکوائرر' نے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے امریکی خفیہ ادارے امریکی شہریوں کی نجی زندگیوں میں تاک جھانک کر رہے ہیں اور بالآخر اب یہ معاملہ عدالتوں کے سامنے آن پہنچا ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں امریکی کانگریس نے خفیہ اداروں کو امریکی شہریوں کی فون کالیں ٹیپ کرنے اور ای میلز دیکھنے کی اجازت دیدی تھی۔ اس اقدام کا مقصد امریکی سیکیورٹی اداروں کو دہشت گردوں کی کاروائیوں اور رابطوں سے باخبر رکھنا تھا تاکہ 11/9 جیسے حملوں کو روکا جاسکے۔
لیکن اخبار لکھتا ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں امریکی شہریوں کے حقوق متاثر ہورہے ہیں اور ان کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی کی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کے کئی اداروں نے امریکی سپریم کورٹ سے خفیہ اداروں کو دیے جانے والے ان اختیارات کی آئینی حیثیت کا تعین کرنے کی درخواست کی تھی جسے عدالت نے رواں ہفتے سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔
'فلاڈیلفیا انکوائرر' لکھتا ہے کہ گو کہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے آن پہنچاہے لیکن امریکی شہریوں کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنے کے بجائے اپنے حقوق کی واپسی کے لیے کانگریس پر دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ اس قانون کو واپس لے۔