اخبار’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کہتا ہے کہ متنازعہ سیاچن گلیشئرمیں برفانی تودہ گرنے کے خوفناک حادثے کے بعد ہندوستان اور پاکستان مذاکرات پرمائل نظر آرہے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ دنیا کے اس بلند تریں محاذ جنگ میں ان دونوں جوہری طاقتوں کو اقتصادی اورانسانی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اس لئے، اولین ترجیح یہ ہونی چاہئےکہ دونوں وُہاں سے اپنی فوجیں ہٹالیں ۔
اخبار کہتا ہے کہ دونوں ملکوں نے جوہری جنگ کے دہانے پر کھڑے ہونے کی وجہ سےپورے خطے کو ایک واضح اور موجود خطرے کا یرغمال بنا رکھا ہے۔ لیکن حال ہی میں دونوں حکومتوں کے لیڈروں کے درمیان اچانک ملاقات کے بعد اور برفانی تودہ گرنےکے اس خوفناک حادثے کے پس منظر میں، اِن دونوں جوہری حریفوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے 28 برسوں کے دوران لڑائی میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی اور پاکستانی فوجیوں کی تعداد کا اندازہ ایک ہزار سے کم ہے۔ لیکن، موسم کی سنگینی، علاقے کی بُلندی اور دوسری دشواریوں کی وجہ سےمرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اوسطاً، ہر تیسرے روز ایک پاکستانی فوجی ہلاک ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی جانب یہ اوسط زیادہ ہےاور ہر دوسرے روز ایک ہندوستانی سپاہی جان کی قربانی دیتا ہے۔
سیاچن کو بعض اوقات کشمیر کے قضیے کا جزوی حصّہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کشمیر پردونوں کا جو سخت موقٓف ہے، اس کے برعکس دونوں فریق سیاچن کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنےپر رضامندی کا اظہار کر چُکے ہیں۔ بلکہ، اس پر پہلے ہی مذاکرات کے بارہ دور ہو چکے ہیں۔ اور اب برفانی تودے کے خوفناک حادثےکے بعد، جس میں 139 پاکستانی ابھی تک دبے ہوئے ہیں، ہاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نےوہاں سے فوجیں ہٹانے کی تجویز رکھی ہے اور ہندوستان کو یہ موقع ہاتھ سےجانے نہیں دینا چاہئے۔
اخبار کہتا ہےکہ سیاچن پر دونوں فریقوں کے دعوؤں کاجلد تصفیہ کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ ۔لیکن، فوری قابل عمل کاروائی یہی ہو سکتی ہے کہ اس علاقے کو فوجوں سے پاک کیا جائے۔
اور اخبار نے یاد دلایا ہے کہ 2005ء میں وزیر اعظم منوہن سنگھ نے اس امّید کا اظہار کیا تھا کہ سیاچن کو امن کے پہاڑ میں بدل دیا جائے گا۔ ہندوستان اور پاکستان کے کوہ پیماوؤ ں اور ماحولیات کے محافظوں نے بھی کہا ہے کہ سیاچن کو ایک شہری علاقے اور امن کے پارک میں بدل دینے کے امکان پر غور کیا جانا چاہئے۔
’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے ایک ادارئے میں اس کی وضاحت کی ہے کہ افغانستان کی طرف سے امریکہ پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ افغانستان کی امداد کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ لیکن اس کے لئے جنگ لڑنے کی حد تک نہیں ۔ عرصے سے یہ بات واضح ہے کہ 2014ء میں افغان فوجوں کی طرف سے سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد بھی امریکہ ایک کردار ادا کرتا رہےگا۔
لہٰذا، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ واشنگٹن اور کابل کے مابین سٹرٹیجک شراکت داری کے ایک معاہدے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ جس کے تحت امریکہ تقریباً مزید دس سال تک افغانستان کو فوجی ، اقتصادی اور دوسری امداد دیتا رہے گا۔
اخبار کے نزدیک اصولی طور پر اس رشتے کو برقرار رکھنے کا مکمل طور پر جواز موجود ہے۔ لیکن اس میں اس شرط کا اضافہ ہونا چاہئے کہ امریکی فوج جنگ میں دوبارہ ملوّث نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی عہدہ دار شاید حقیقت سے زیادہ پُر اعتماد ہیں کہ افغان سیکیورٹی اور تعمیر نو کی ذمہ داریاں کے اہل ہیں ۔ لیکن دس سال کی جنگ اور تقریباً دو ہزار امریکی جانوں کی قربانی کے بعد امریکہ کے لئے لڑائی میں شامل رہنے کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ جب تک یہ عمل جاری رہتا ہے۔ محدود اقتصادی اور فوجی امداد جاری رکھنے، اور تربیت فراہم کرنے وال چند ہزار امریکی فوجیوں کی وہاں موجودگی میں کوئی حرج نہیں۔ اور نہ ہی یہ امریکی کردار کرزئی حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے منافی ہے۔دس سال قبل حملہ کرنے کے بعد یہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر اور سیکیورٹی کے لئے امداد فراہم کرے ۔ لیکن اس حد تک نہیں کہ وہ اس کے لئےلڑائی لڑے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے آرٹ کے صفحات پر پاکستان کے عوامی گلوکار عارف لوہار پر ایک فیچرچھپا ہے جس میں انہیں ثقافتی سفیر قرار دیا گیا ہے۔
عارف لوہار آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں۔ اور ان کا یہ دورہ کاروان سرائے کا حصّہ ہے۔ جس کے تحت روائتی مسلمان آرٹسٹوں کو امریکی شایقین کے سامنے اپنے موروثی فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ عارف لوہارمون ٹانا سمیت امریکہ کے پورے شمال مشرقی علاقے کا دورہ کر چکے ہیں اور اب نیو یارک کی ایشیا سوسائٹی کے زیر اہتمام اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے ہیں۔
مسٹر لوہار نے کاروان سرائے کے بارے میں کہاکہ اس کا نصب ا لعین بہت خوب صورت ہےاور میرے خیال میں موجودہ وقت میں اس کی نہایت ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کی بدولت لوگوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ اور آرٹ کو پُل بناتے ہوئے ہم امریکیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ اور باہمی محبت بڑھاتے ہیں اورامن عالم کےلئے دعا کرتے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: