رسائی کے لنکس

قیدی طالبان لشکریوں کو حلال روزی کمانے کے قابل بنانے کی تربیت


قیدی طالبان لشکریوں کو حلال روزی کمانے کے قابل بنانے کی تربیت
قیدی طالبان لشکریوں کو حلال روزی کمانے کے قابل بنانے کی تربیت

امریکی اخبارات سے: امریکی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ1000ایسے قیدیوں کو جِن کی اچھی طرح چھان پھٹک کی گئی تھی اور جِنھوں نے یہ خصوصی تربیت مکمل کرلی تھی، جب رہا کیا گیا تو اُن میں سے صرف ایک آدمی ایسا نکلا جِس نے پھر سے لڑائی کا دھندا اختیار کیا

’کرسچن سائنس مانیٹر‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج نے ایک پروگرام شروع کیا ہے جِس کے تحت طالبان کے جو لشکری اُنھوں نے گرفتار کیے ہیں اُنھیں تربیت دی جارہی ہے، تاکہ اُنھیں جب رہا کردیا جائے تووہ حلال کی روزی کما سکیں۔

اخبار کے بقول امریکہ کے اِس پروگرام کو ناقدین قبل از وقت سمجھتےہیں، جِس سے افغان حکومت کی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ قیدی پروان صوبے میں افغانستان کے بگرام کے ہوائی اڈے کے قریب ایک کیمپ میں خاردار تاروں کے جنگلے کے پیچھے نظر آتے ہیں۔

اخبار نے امریکی عہدے داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ1000ایسے قیدیوں کو جِن کی اچھی طرح چھان پھٹک کی گئی تھی اور جِنھوں نے یہ خصوصی تربیت مکمل کرلی تھی، جب رہا کیا گیا تو اُن میں سے صرف ایک آدمی ایسا نکلا جِس نے پھر سے لڑائی کا دھندا اختیار کیا۔

اِس پروگرام کو چلانے والے امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان سابق لشکریوں کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ جب اُنھیں رہا کیا جائے تو وہ جائز طریقے سے روزی کما سکیں۔

قیدیوں کے اِس کیمپ میں جو ہُنر سکھائے جاتے ہیں اُن میں شہد کی مکھی پالنا، درزی کا کام یا دوسرے کسب شامل ہیں۔ اس کے باوجود اخبار کہتا ہے کہ اِن لوگوں کا رہائی کے بعد معاشرے میں اُن کا دوبارہ ادغام شکوک و شبہات اور دشواریوں سے پُر ثابت ہوا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ طالبان کے بعض عناصر کے ساتھ مصالحت کی افغان کوششیں عملی طور پر ستمبر سے رُک گئی ہیں جب اعلیٰ مذاکرات کار برہان الدین ربانی کو قتل کردیا گیا تھا۔

اخبار کے بقول طالبان کے بارے میں امریکی اور افغان حکومتون کے موقفوں میں بنیادی فرق ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ طالبان کی تحریک ایک با ہم پیوست تحریک ہے اور افغان سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریک کے ساتھ اُس کے لیڈروں ہی کے ذریعے لین دین ہونا چاہیئے۔ کیا یہ صحیح ہے یا امریکہ کا یہ نتیجہ درست ہے کہ عام طالبان تو بے روزگاری کے مارے لوگ ہیں جو باغی تنظیم کو چھوڑ کر اُس کو تباہ کرنے کے کام آسکتے ہیں، بشرطیکہ اُنھیں روزی کمانے کا ہُنر سکھایا جائے۔

اخبار کے بقول، اب تک 2350سابق لشکری اعلانیہ معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے کے پروگرام کا حصہ بن گئے ہیں۔

’بوسٹن گلوب‘ کے ادارتی صفحوں پر صدر اوباما کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کیونکر دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کسی کو اِس بات کا قائل تو نہیں کرسکتے کہ اُنھوں نے ملک کوبدل کر رکھ دیا ہے، البتہ وہ یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اُنھوں نے اُن مسائل میں سے بہت سوں کو حل کردیا ہے جو انھیں

اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش سے ترکے میں ملے تھے اور بقیہ مسائل میں معنی خیز پیش رفت کی ہے جو اُنھیں دوبارہ منتخب کرنے کا جواز بنتی ہے۔

اخبار یاد دلاتا ہے کہ امریکی عوام پہلے عراق کی جنگ کے معاملے پر وسیع پیمانے پر صدر بُش اور ریپبلکن پارٹی کے خلاف ہوگئے تھے۔اور اوباما کی طرف سے اس جنگ کی مخالفت اور ہیلری کلنٹن کے ساتھ اس مسئلے پر شدید اختلافات پر اُنھیں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی نصیب ہوئی اور وہ بالآخر وہائٹ ہاؤس میں پہنچ گئے۔

بُش کی شروع کردہ جنگ کو ختم کرنے کا جو عہد اوباما نہ کیا تھا اُس کو پورا کرنا اُن ووٹروں کو بھی اُن کا قائل کرے گا، جِنھیں معیشت سے مایوسی ہے۔

اِسی طرح، جو مزید کارنامے اُنھیں اوباما قائل کریں گے اُن میں دہشت گردوں اور ڈکٹیٹروں کو ٹِھکانے لگانا شامل ہے، اسامہ بن لادن، کرنل قذافی اور انور اولکی سب اوباما کی کارروائیوں ہی کی بدولت کیفرِ کردار کو پہنچے ہیں۔

’واشنگٹن ٹائمز‘ میں کام نویس Jonah Goldbergرقمطراز ہیں کہ باوجود یہ کہ اُن کے نزدیک عراق سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا صدر اوباما کا فیصلہ ایک غلطی ہے، لیکن اِس کا ایک روشن پہلو بھی ہے۔وہ یہ کہ اِس ملک کے اندر اور باہر ناقدین کے منہ پر یہ فیصلہ ایک طمانچہ ہے جو امریکہ کو سامراج کا طعنہ دیتے ہیں۔

قدیم اہل روم سے لے کر برطانیہ اور سویت دور کی سلطنتوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ملکوں پر قبضہ کرکے اور اُن کے قدرتی وسائل پر تسلط قائم کرکے سیاسی کنٹرول حاصل کرتی تھیں، لیکن عراق میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔

کالم نویس کے بقول مسٹر اوباما نے عراق سے واپسی کے اُسی نظام الاوقات پر عمل درآمد کیا ہے جو بُش انتظامیہ نے مرتب کیا تھا بلکہ مسٹر اوباما، مسٹر بش کے جِس قدر قریب آئے ہیں وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ اِس کی مثال لیبیا ہے جہإ ں مسٹر اوباما نے زبردستی حکومت کو بدلنے کی اُسی پالیسی پر عمل کیا جِس کی عراق جنگ کے ناقدین مذمت کرتے آئے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG