’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک مضمون کے مطابق دواسرائیلی سیاست دانوں کے ہاتھ میں یہ فیصلہ ہےکہ آیا ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے اُس پر حملہ کیا جائے یا نہیں ۔ ایک تو ہیں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور دوسرے وزیر دفاع ایہود براک، جن کے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لیکن وہ ایران کے مسئلے پر ایک دوسرے کے بُہت قریب آ چُکے ہیں۔ اس حد تک، کہ اسرائیلی کابینہ کے اندر اُن کی ایک علیٰحدہ کِچن کیبنٹ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اسرائیل میں جہاں بہت لوگوں کا خیال ہے کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ ایک تباہی کے مترادف ہوگا وہاں مسٹر براک اورمسٹر نیتن یاہو کا یہ استدلال پُختہ ہوتا جا رہا ہے کہ شاید اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔
اُن کا نظریہ یہ ہے کہ ایران کے پاس اگر جوہری بم آیا، تو وہ یا تو براہ راست خود ، یا پھر کسی تیسرے فریق کے ذریعے اسرائیل کو تباہ کرنے کے لئے استعمال ہوگا اور خطّے میں اسلحے کی ددوڑ شرع ہو جائے گی ۔ اسرائیل کو یا تو اس کے لئے تیار ہونا ہوگا، یا پھر ایران کے پاس جوہری ہتھیار آنے سے پہلے اس پر حملہ کرنا ہوگا۔ اور اس حملے کے نتائج بُھگتنے کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ اُن کی ترجیح یہی ہوگی کہ حملہ کیا جائے ۔ اُن کو تسلیم ہے کہ جوابی حملہ ہوگا ۔ لوگوں کی جانیں جائیں گی اور مالی نقصان ہوگا ۔ اس کے باوجود وہ حملہ کرنے کو ترجیح دیں گے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ اگرانہوں نے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں سیکیورٹی کابینہ میں اکثریت کی حمائت حاصل کرنی ہوگی۔ بیشتر تخمینے یہ ہیں کہ اس 14 رُکنی کابینہ کی اکثریت ان کی حمائت کرےگی ، چاہے ووٹ آٹھ اور چھ ہی کیوں نہ ہوں۔ اخبا کہتا ہے کہ اسوقت یہ مسئلہ کابینہ کے ایجنڈے میں نہیں رکھا گیا ہے اوراسے آخری وقت کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے، جب وزیروں کے لئے اس کی مخالفت کرنا ممکن نہ رہے۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔اگر چہ، مغربی طاقتوں کو یقین ہے کہ مقصد بم بنانا ہے۔ اسرائیل، ایرانی لیڈوں کے ان باربارکے بیانوں کی طرف توجہ دلاتاہے جن میں اسرائیل کوتباہ کرنے کی دہمکی دی گئی ہے، جب کہ امریکہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے قبل کہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کی جائے، سفارت کاری اوراُن تعزیرات کواثر انداز ہونے کا موقع دینا چاہئیے جو ایران کے مالیاتی اداروں اور توانائی کی صنعتوں کے خلاف لگائی گئی ہیں۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہےکہ مسٹر نیتن یاہو نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد عام طور سے باورکیا جاتا ہے کہ صدراوبامہ کواس کے لئے مزید وقت ملا ہے اور خیال یہی ہے کہ اگلے چند مہینوں کے دوران کوئی حملہ نہیں ہوگا۔
اخبار’ یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ملک میں گیس کی پیداوار میں بھا ری اضافے کے پیش نظر توانائی کی فراہمی کا مستقبل ہی بدل گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے سے امریکہ میں توانائی اتنی بھاری مقدار میں دستیاب ہے کہ چند سال قبل اس کا وہم و گما ن بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور یہ گیس اتنی فراوانی کے ساتھ اور اتنی سستی ہے کہ درآمدی تیل کی بھاری مقدار اور کاربن ڈائیکسائیڈ سے لدے ہوئے کوئلے کی جگہ لے سکتی ہے۔
اخبار کا اندازہ ہے کہ اگلے بیس سال کے دوران ملک میں قدرتی گیس کے استعمال میں 50 فی صد اضافہ ہو جانے کی توقّع ہے۔اگر 30 بلین مکعب فُٹ روزانہ کا یہ اضافہ ٹرانسپورٹ، بجلی پیدا کرنے اور صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج ڈرامائی ہونگے۔ اور اگر اسے موٹر گاڑیاں چلانے کے لئے استعمال کیا جائے تودس بلین مکعب فُٹ گیس 18 لاکھ بیرل تیل روزانہ کی جگہ استعمال ہوگی۔ یعنی موجودہ درآمدات کا ایک چوتھائی۔
اخبار کہتا ہے کہ پٹرول او ر گیس کے مقابلے میں اس سے کم مقدار میں گرین ہاؤس گیسِز خارج ہوتی ہیں اور یہ فضاء میں دُھنواں ہٹانے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہےاور ملک کو دساور کے غیر مستحکم علاقوں سے تیل کی درآمد پر کم انحصار کرنا پڑے گا۔
امریکی انتظامیہ نے امریکی پاور پلانٹس سے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر حد مقرر کرنے کی جو تجویز رکھی ہے۔اُس پر’ کرسچن سایئنس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اگر اس منظور کر لیا گیا تو اس کے نتیجے میں کوئیلے سے چلنے والے نئے پاور پلانٹوں کی تعمیر پربھاری روک لگ سکتی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ اس وقت ملک کی 40 فی صد بجلی پیدا کرتے ہیں، اور ان سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کا بھی یہی تناسُب ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے ادارےکا کہنا ہے کہ کوئلے سے چلنے والے نئے پاؤر پلانٹس میں بھی کاربن ڈائیکسائیڈ کے اخراج کی حد نئے ضوابط کے مطابق نیچے لائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: