رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: ڈاکٹر آفریدی کی سزا پر امریکی تشویش


اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک اداریے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستان میں دی جانے والی سزائے قید پر کڑی تنقید کی ہے اور اس سزا کو امریکہ اور پاکستان کی کشیدگی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ درست ہے کہ کوئی بھی ملک یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کے شہری کسی دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کریں، لیکن ڈاکٹر آفریدی کے معاملے کو اس تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔

'واشنگٹن پوسٹ' نے اس امر پر حیرانی ظاہر کی ہے کہ دنیا کے مطلوب ترین شخص کا سراغ لگانے میں معاونت کرنے والے کو پاکستان میں ہیرو کا درجہ دینے کے بجائے سزا سنادی گئی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ بجائے اس کے کہ پاکستانی حکام ان افراد کا تعین کرکے ان کے خلاف کاروائی کرتے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد جیسے فوجی شہر میں طویل قیام کے ذمہ دار تھے، انہوں نے الٹا ڈاکٹر آفریدی پہ غصہ اتارا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ اسرار کے پردوں میں پوشیدہ ہے اور ان کے بارے میں زیادہ تفصیلات منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔لیکن یہ واضح ہے کہ ڈاکٹر آفریدی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی باہم کشیدگی کا نشانہ بنے ہیں۔ 'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق پاکستانی حکام اس بات پر برہم ہیں کہ امریکی فوجیوں نے انہیں اعتماد میں لیے بغیر اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے پاکستانی حدود میں کاروائی کیوں کی۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے لیے حتی المقدور کوشش کرے۔ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ان کا ملک ڈاکٹر آفریدی کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ 'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو اپنی ترجیح میں رکھے۔

امریکہ میں مئی کے آخری پیر کو میں ملک کے لیے قربانیاں اور خدمات سرانجام دینے والے فوجیوں کا دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد ملک کے لیے جانیں دینے والے فوجی اہلکاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔

اس دن کی مناسبت سے تمام امریکی اخبارات نے خصوصی مضامین اور اداریے شائع کیے ہیں۔ اسی مناسبت سے اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' میں شائع شدہ ایک میں کہا گیا ہے کہ سابق امریکی فوجیوں میں جنگ مخالف جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ 'پیو ریسرچ سینٹر' کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد امریکی افواج سے سبکدوش ہونے والے فوجیوں کی بڑی تعداد جنگ مخالف جذبات رکھتی ہے۔

سروے کے نتائج کے مطابق 11/9 کے بعد ریٹائر ہونے والے 33 فی صد فوجی سمجھتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والے جنگیں بے مقصد تھیں۔ سروے کے مطابق اس رائے کاظہار کرنے والے ان سابق فوجیوں میں اکثریت ان اہلکاروں کی ہے جو خود اپنی خواہش پر جوش و جذبے کے ساتھ ان جنگوں میں شریک ہوئے تھے۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' نے ایک سابق فوجی عہدیدار کے حوالے سے لکھا ہے کہ عراق اور افغان جنگ کے دوران میں پر تشدد ہتھکنڈوں کا استعمال، غیر قانونی گرفتاریاں اور عوام اور خود فوجیوں سے جنگوں کی مقصدیت کے بارے میں کی جانے والی غلط بیانی وہ عوامل ہیں جن کے باعث سابق فوجیوں کی ایک بڑی تعداد ان سے متنفر ہورہی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ 'پیو ریسرچ سینٹر' کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں امریکہ کی کل آبادی کے ایک فی صد کے بھی نصف افراد نے امریکی فوج میں خدمات انجام دیں جو تاریخ کی کم ترین سطح ہے۔

اخبار کے مطابق افرادی قوت کی اس کمی کے باعث کئی فوجیوں کو چھ، چھ بار میدانِ جنگ میں بھیجنا پڑا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ سابق فوجیوں میں جنگ مخالف جذبات کے پروان چڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام امریکی یا تو اپنی افواج کی خدمات اور قربانیوں سے لاعلم ہیں یا ان کی قدر نہیں کرتے۔

اخبار لکھتا ہے کہ 80 فی صد امریکی ایسے ہیں جن کا کوئی رشتے دار فوج میں خدمات انجام نہیں دے رہا اور یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو عراق اور افغان جنگ کی اہمیت اور ان مشکلات کا احساس نہیں جو امریکی فوجیوں کو ان محاذوں پر درپیش ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ جنگ سے لوٹنے والے امریکی فوجیوں کو ملک میں اور بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملکی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے اور مالی بحران کے باعث حکومت سابق فوجیوں کو دی جانے والی مراعات میں کمی لارہی ہے۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' کے مطابق ان تمام حالات کا سابق فوجیوں کی نفسیاتی زندگی پر برا اثر پڑ رہا ہے اور 11/9 کے بعد ریٹائر ہونے والے فوجیوں میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG