واشنگٹن —
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے کرنے کے لئے نو ماہ کی جو مدت طے کی گئی تھی، وہ اپریل کے مہینے میں پوری ہونے والی ہے۔ اور ایک فلسطینی صحافی داؤود قطب نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اس مدّت کے اندر اندر یہ معاہدہ شائد نہ طے پا سکے۔ ’ہفننگٹن پوسٹ‘ میں ایک تجزئے میں، وُہ یاد دلاتے ہیں کہ 1993 ءمیں طے پانے والے اُس پانچ سالہ عبوری سمجھوتے سے وُہ کافی نقصان اُٹھا چُکے ہیں، جو بغیر کسی پیش رفت کے، اب پھیل کر 2 عشروں پر مُحیط ہو چکا ہے۔
اس لئے، اب وُہ کسی قسم کے مزید عبوری سمجھوتے کے خلاف ہیں، اور چار جنوری کو اعلیٰ فلسطینی مذاکرات کار، صائب ارکات نے امریکی وزیر خارجہ کی فلسطینی صدر محمود عبّاس کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ہم تمام اہم امور پر اتفاق رائے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اور، اس کا دائرہٴکار عبوری سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اور اس بنیاد کا مقصد دونوں جانب کی رائے عامّہ کو حتمی فیصلے کے لئے تیار کرنا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہےکہ اس سمجھوتے سے بعض سیدھے سادے سوالوں کی وضاحت کی توقع کی جا رہی ہے، جو اب تک معمّہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی دریائے اُردن ور بُحیرہٴ روم کے درمیان جو علاقہ ہے، کیا وہاں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں ہونگی یا نہیں۔ واضح سوال فلسطینی مملکت اور اس کی خود مختاری کی انتہا کا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے عرصہٴدراز سے فلسطینی مملکت کے لئے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ اس کے پاس فوج نہیں ہوگی، اور اس پر مُستزاد یہ کہ وادی اردن میں اسرائیلی فوجیں موجود رہنی چاہئیں، اور فلسطینیوں کی سرحدوں پر آمدورفت پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگا۔
حال ہی میں لیکُوڈ پارٹی نے تجویز رکھی ہے کہ اس وادی کے مغربی کنارے کا ایک چوتھائی اسرائیل میں ضم کر دیا جائے۔ ایک اور حل طلب بات یہ ہے کہ آیا فضائی حدود اور زیر زمین پانی اور امکانی گیس اور تیل کے ذخائر پر فلسطین کی حاکمیت اعلی تسلیم کی جائے گی۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اگر کسی سمجھوتے میں ان سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا، تو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ جیسی اصطلاحات بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔
آگے چل کر، اُس کا کہنا ہے کہ اگر سرحدوں اور حاکمیت اعلیٰ کا مسئلہ سُلجھایا جاتا ہے، پھر بھی فلسطینی سرزمین پر یہودی آبادکاروں اور بستیوں کا معاملہ حل طلب رہے گا۔
دوسری طرف، یرو شلم کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، بالخصوص اس کے مسجد کے علاقے میں، جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ آخر میں، داؤد قطب نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری نے ان مشکل حالات میں امن معاہدے کے حصول کے لئے جس ثابت قدمی سے کام کیا ہے، اُس سے بُہت سے مبصّرین کو حیرت ہوئی ہے۔
اپنی خادمہ کے ویزہ کے لئے مبیّنہ طور پر فراڈ کرنے کی پاداش میں، نیو یارک میں ایک ہندوستانی سفارت کار کی گرفتاری کا واقعہ، بقول ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے، دنیا کی دو سب سے زیادہ گُنجان آباد جمہوریتوں کے مابین سنگین ترین تنازعہ کی شکل اختیا کرتا جا رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہندوستان نے پہلےامریکی سفارت خانے سےسیکیورٹی کی روکاوٹیں ہٹا دیں۔ پھر، امریکی سفارت کاروں پر شراب درآمد کرنے پر پابندی لگا دی، اور اب وہ مقامی امیریکن کلب کو بند کرنے کے درپے ہے۔
ہندوستانی حکومت نے نئی دہلی کی پولیس کو یہ ہدائت بھی کی ہے کہ امریکی سفارت خانے کی گاڑیوں کو ٹریفک کی خلاف ورزیوں کے لئے جو استثنیٰ حاصل تھا وہ بھی واپس لیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ بیشتر امریکیوں کے لئے ایک ہندوستانی سفارت کار کی گرفتاری ایک عام سی بات ہوگی، لیکن ہندوستانیوں کے لئے یہ قومی وقار کا معاملہ ہے۔ اور اُن کی حکومت امریکی سفارت کاروں پر غیر معمولی دباؤ ڈال کریہ نقطہ اُن کے ذہن نشین کرانا چاہتی ہے۔ اس جھگڑے کے دوران، امریکی محکمہٴخارجہ کی یہی کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ سفارتی لین دین معمول کے مطابق قائم رہے اور سفارت کار کی گرفتاری کے معاملے کو اس پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے جس کو اس نے بد قسمتی سے تعبیر کیا ہے اور جس میں مداخلت کرنے کا اُسے کوئی اختیار نہیں ہے۔
لیکن، ہندوستان کے نزدیک، ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ، ہندوستان نے اپنی ناراضگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے، یہ قدم اُٹھائے ہیں جن میں سے کُچھ سنگین ہیں اور کُچھ بہت معمولی۔
اور ’بالٹی مور سن‘ کی رپورٹ ہے کہ میری لینڈ بورڈ آف پبلک ورکس نے 13 ملین ڈالر کی منظوری دی ہے، تاکہ مارک ٹرینیوں کو ایک نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے جس کی مدد سے حادثہ ہو جانے سے پہلے ہی ٹرین کی رفتار کم کی جائے یا پھر اُسے روکا جائے۔ اور، اس طرح، ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے اگر حادثہ ہو بھی جائے تو بھی زیادہ نقصان نہ ہو۔ اخبار کہتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے، نیو یارک میں پچھلے ماہ کے اس حادثے کو روکا جاسکتا تھا، جس میں ایک تیز رفتار ٹرین پٹڑی سے اُتر گئی تھی اور چار افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوگئے تھے۔
اس لئے، اب وُہ کسی قسم کے مزید عبوری سمجھوتے کے خلاف ہیں، اور چار جنوری کو اعلیٰ فلسطینی مذاکرات کار، صائب ارکات نے امریکی وزیر خارجہ کی فلسطینی صدر محمود عبّاس کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ہم تمام اہم امور پر اتفاق رائے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اور، اس کا دائرہٴکار عبوری سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اور اس بنیاد کا مقصد دونوں جانب کی رائے عامّہ کو حتمی فیصلے کے لئے تیار کرنا ہے۔
مضمون نگار کا کہنا ہےکہ اس سمجھوتے سے بعض سیدھے سادے سوالوں کی وضاحت کی توقع کی جا رہی ہے، جو اب تک معمّہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی دریائے اُردن ور بُحیرہٴ روم کے درمیان جو علاقہ ہے، کیا وہاں دو الگ الگ خود مختار مملکتیں ہونگی یا نہیں۔ واضح سوال فلسطینی مملکت اور اس کی خود مختاری کی انتہا کا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے عرصہٴدراز سے فلسطینی مملکت کے لئے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ اس کے پاس فوج نہیں ہوگی، اور اس پر مُستزاد یہ کہ وادی اردن میں اسرائیلی فوجیں موجود رہنی چاہئیں، اور فلسطینیوں کی سرحدوں پر آمدورفت پر اسرائیل کا کنٹرول ہوگا۔
حال ہی میں لیکُوڈ پارٹی نے تجویز رکھی ہے کہ اس وادی کے مغربی کنارے کا ایک چوتھائی اسرائیل میں ضم کر دیا جائے۔ ایک اور حل طلب بات یہ ہے کہ آیا فضائی حدود اور زیر زمین پانی اور امکانی گیس اور تیل کے ذخائر پر فلسطین کی حاکمیت اعلی تسلیم کی جائے گی۔
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اگر کسی سمجھوتے میں ان سوالوں کا جواب نہیں دیا جاتا، تو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ جیسی اصطلاحات بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔
آگے چل کر، اُس کا کہنا ہے کہ اگر سرحدوں اور حاکمیت اعلیٰ کا مسئلہ سُلجھایا جاتا ہے، پھر بھی فلسطینی سرزمین پر یہودی آبادکاروں اور بستیوں کا معاملہ حل طلب رہے گا۔
دوسری طرف، یرو شلم کا مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے، بالخصوص اس کے مسجد کے علاقے میں، جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ آخر میں، داؤد قطب نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ جان کیری نے ان مشکل حالات میں امن معاہدے کے حصول کے لئے جس ثابت قدمی سے کام کیا ہے، اُس سے بُہت سے مبصّرین کو حیرت ہوئی ہے۔
اپنی خادمہ کے ویزہ کے لئے مبیّنہ طور پر فراڈ کرنے کی پاداش میں، نیو یارک میں ایک ہندوستانی سفارت کار کی گرفتاری کا واقعہ، بقول ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے، دنیا کی دو سب سے زیادہ گُنجان آباد جمہوریتوں کے مابین سنگین ترین تنازعہ کی شکل اختیا کرتا جا رہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہندوستان نے پہلےامریکی سفارت خانے سےسیکیورٹی کی روکاوٹیں ہٹا دیں۔ پھر، امریکی سفارت کاروں پر شراب درآمد کرنے پر پابندی لگا دی، اور اب وہ مقامی امیریکن کلب کو بند کرنے کے درپے ہے۔
ہندوستانی حکومت نے نئی دہلی کی پولیس کو یہ ہدائت بھی کی ہے کہ امریکی سفارت خانے کی گاڑیوں کو ٹریفک کی خلاف ورزیوں کے لئے جو استثنیٰ حاصل تھا وہ بھی واپس لیا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ بیشتر امریکیوں کے لئے ایک ہندوستانی سفارت کار کی گرفتاری ایک عام سی بات ہوگی، لیکن ہندوستانیوں کے لئے یہ قومی وقار کا معاملہ ہے۔ اور اُن کی حکومت امریکی سفارت کاروں پر غیر معمولی دباؤ ڈال کریہ نقطہ اُن کے ذہن نشین کرانا چاہتی ہے۔ اس جھگڑے کے دوران، امریکی محکمہٴخارجہ کی یہی کوشش رہی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ سفارتی لین دین معمول کے مطابق قائم رہے اور سفارت کار کی گرفتاری کے معاملے کو اس پر اثرانداز نہ ہونے دیا جائے جس کو اس نے بد قسمتی سے تعبیر کیا ہے اور جس میں مداخلت کرنے کا اُسے کوئی اختیار نہیں ہے۔
لیکن، ہندوستان کے نزدیک، ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ، ہندوستان نے اپنی ناراضگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے، یہ قدم اُٹھائے ہیں جن میں سے کُچھ سنگین ہیں اور کُچھ بہت معمولی۔
اور ’بالٹی مور سن‘ کی رپورٹ ہے کہ میری لینڈ بورڈ آف پبلک ورکس نے 13 ملین ڈالر کی منظوری دی ہے، تاکہ مارک ٹرینیوں کو ایک نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے جس کی مدد سے حادثہ ہو جانے سے پہلے ہی ٹرین کی رفتار کم کی جائے یا پھر اُسے روکا جائے۔ اور، اس طرح، ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے اگر حادثہ ہو بھی جائے تو بھی زیادہ نقصان نہ ہو۔ اخبار کہتا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے، نیو یارک میں پچھلے ماہ کے اس حادثے کو روکا جاسکتا تھا، جس میں ایک تیز رفتار ٹرین پٹڑی سے اُتر گئی تھی اور چار افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوگئے تھے۔