واشنگٹن —
تحریکِ طالبان پاکستان نے اپنے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد پاکستانی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے۔
'ٹی ٹی پی' کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ تحریک کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پہلے سے ہی مخالف ہیں اور اب ان کے زیرِ قیادت طالبان حکومت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستانی طالبان نے گزشتہ ہفتے ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کی جگہ شمالی ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو اپنا نیا قائد مقرر کیا ہے۔
حکیم اللہ محسود جمعے کو امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں ایک گاڑی پر کیے جانے والے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
پاکستان کی حکومت نے امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ کی ہلاکت پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان رہنما کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب طالبان اور حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز ہونے والا تھا۔
پاکستانی حکومت نے ڈرون حملے کو طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے امریکہ کی سخت مذمت کی تھی۔
طالبان کی جانب سے اپنے نئے امیر کے تقرر کا اعلان جمعرات کو سامنے آیا ہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق نئے قائد کا فیصلہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' کی 17 رکنی شوریٰ نے طویل مشاورت کے بعد کیا ہے۔
نئے امیر کے نام کے اعلان کے بعد 'رائٹرز' کے ساتھ نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے الزام عائد کیا کہ تمام حکومتیں ان کے ساتھ 'ڈبل گیم' کرتی آئی ہیں اور امن مذاکرات کے نام پر طالبان کو دھوکہ دے کر ان کے لوگوں کو مارا جاتا رہا ہے۔
شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ طالبان کو 100 فی صد یقین ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
طالبان ترجمان نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور وہ جلد حکیم اللہ محسود کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے طالبان کی جانب سے کاروائیاں کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
سنہ 2005 میں منظرِ عام پر آنے والے ملا فضل اللہ کی قیادت میں سوات میں طالبان نے متوازی حکومت قائم کرلی تھی جس کے بعد پاکستانی فوج نے 2009ء میں وہاں آپریشن کرکے حکومتی عمل داری کو بحال کیا تھا۔
فوجی آپریشن کے دوران فضل اللہ سوت سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ سرحد پار افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہے۔
'ٹی ٹی پی' کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ تحریک کے نئے سربراہ ملا فضل اللہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے پہلے سے ہی مخالف ہیں اور اب ان کے زیرِ قیادت طالبان حکومت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستانی طالبان نے گزشتہ ہفتے ڈرون حملے میں مارے جانے والے حکیم اللہ محسود کی جگہ شمالی ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے ملا فضل اللہ کو اپنا نیا قائد مقرر کیا ہے۔
حکیم اللہ محسود جمعے کو امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں ایک گاڑی پر کیے جانے والے ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
پاکستان کی حکومت نے امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ کی ہلاکت پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان رہنما کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب طالبان اور حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز ہونے والا تھا۔
پاکستانی حکومت نے ڈرون حملے کو طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے امریکہ کی سخت مذمت کی تھی۔
طالبان کی جانب سے اپنے نئے امیر کے تقرر کا اعلان جمعرات کو سامنے آیا ہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق نئے قائد کا فیصلہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' کی 17 رکنی شوریٰ نے طویل مشاورت کے بعد کیا ہے۔
نئے امیر کے نام کے اعلان کے بعد 'رائٹرز' کے ساتھ نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے الزام عائد کیا کہ تمام حکومتیں ان کے ساتھ 'ڈبل گیم' کرتی آئی ہیں اور امن مذاکرات کے نام پر طالبان کو دھوکہ دے کر ان کے لوگوں کو مارا جاتا رہا ہے۔
شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ طالبان کو 100 فی صد یقین ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر کیے جانے والے ڈرون حملوں کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
طالبان ترجمان نے 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'تحریکِ طالبان پاکستان' کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں اور وہ جلد حکیم اللہ محسود کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے طالبان کی جانب سے کاروائیاں کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
سنہ 2005 میں منظرِ عام پر آنے والے ملا فضل اللہ کی قیادت میں سوات میں طالبان نے متوازی حکومت قائم کرلی تھی جس کے بعد پاکستانی فوج نے 2009ء میں وہاں آپریشن کرکے حکومتی عمل داری کو بحال کیا تھا۔
فوجی آپریشن کے دوران فضل اللہ سوت سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ سرحد پار افغانستان کے صوبے نورستان میں روپوش ہے۔