واشنگٹن —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرّف کی ساڑھے چار سال کےبعد وطن واپسی کو امریکی ذرائع ابلاغ میں کس نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اُس کی ایک جھلک ’نیو یارک ٹائمز‘ میں ملتی ہے، جس کے صفحہٴاول پر اُن کے کراچی پہنچنےکی ایک تصویر چھپی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اتنے عرصے اپنی مرضی سے جلاوطن رہنے کے بعد ایک نئے سیاسی مستقبل کی امید لے کر پاکستان پہنچے ہیں۔
لیکن، کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک چھوٹے سے مجمعے نے اُن کا نعروں سے استقبال کیا، جِن کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی ہے، لیکن میں پاکستان کو بچانا چاہتا ہوں۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان اور القاعدہ سابق صدر کو ہلاک کرنے کی متعدّد دھمکیاں دے چُکے ہیں، جن سے وُہ اب تک بچے ہوئے ہیں۔ کراچی شہر میں جس پبلک جلسے سے اُنہیں خطاب کرنا تھا اُسے منسوخ کیا گیا۔ اُن کی سیاسی پارٹی کےایک لیڈر اور پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل راشد قریشی کےحوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ حکومت نے اُنہیں اطّلاع دی تھی کہ جنرل مشرّف کی جان کو سنگین خطرہ ہے اور یہ کہ طالبان کئی اطراف سے بندوق برداروں اور خود کُش بمباروں سے حملہ کراکے اُنہیں ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل مشرّف کی اس طرح کی وطن واپسی سے ایسے بُہت سے سوالات اُٹھتے ہیں آیا پاکستان کے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں اُن کا کوئی سیاسی کردار ممکن ہے؟ خاص طور سے اس حقیقت کے پیش نظر کہ اُنہیں سیکیورٹی کی اور قانونی مُشکلات درپیش ہیں۔ مسٹر مشرّف کو کئی عدالتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہیں واپس آنے سےقبل اُن فوجداری مقدّموں میں ضمانت کا انتظام کرنا پڑا تھاجو سابق وزیر اعظم بے نظیر بُھٹو اور نواب اکبر بُگتی کے قتل کے سلسلے میں اُن کے خلاف قائم ہیں۔ اُنہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستانی تجزیہ کار اس امکان کو ردّ کرتے ہیں کہ مسٹر مشرّف اپنا سیاسی اثرونفوذ دوبارہ حاصل کر سکیں گے۔
جنرل مشرف کی پاکستان واپسی پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ سابق صدر، جنہیں فوجداری مقدّموں اور طالبان کی طرف سے قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے، ایک ایسے ملک واپس پہنچے ہیں جو ایک تاریخ ساز سیاسی تبدیلی کے مرحلے سے گُزر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے حکومت اقتدار سے الگ ہو چُکی ہےاور مئی میں انتخابات منعقد ہونا ہیں ، جو اگر پروگرام کے مطابق ہوئے ، تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ حکومت کی تبدیلی جمہوری طریقے سے ہوگی۔ سابقہ منتخب حکومتیں یا تو سیاسی جوڑ توڑ یا فوجی انقلاب کی وجہ سے اپنی مدت نہ پوری کر سکیں۔ خود جنرل مشرف فوجی انقلاب کی بدولت میاں نواز شریف کی حکومت کو ہٹا کر اقتدار میں آئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے انتخابات کے بارے میں عام تاثُّر یہی ہے کہ میاں نواز شریف کے اقتدار میں واپس آنے کے قوی امکانات ہیں۔اِن انتخابات میں جنر ل مشرف کی نو خیز سیاسی پارٹی ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ بھی مقابلہ کر رہی ہے۔
اخبار نے بُرکِنز اِنسٹی ٹیُوٹ کے سکالر، برُوس رائیڈر کےحوالے سے بتایا ہے کہ اگر مسٹر مشرّف کے ماضی کے طرزعمل پر گرفتار کر کے اُن پر مقدّمہ چلایا گیا، تو اِس سے فوج میں تشویش پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن، اگر کوئی کاروائی نہ کی گئی تو اس کا دونوں شریف اور بُھٹّو کےحامیوں کی طرف سے سنگین ردِّ عمل ہوگا۔
اخبار کہتا ہےکہ اگر ایک طرف مسٹر مشرّف کو امریکی حکومت اس بات پر تعریف کا مسحق قرار دیا گیا ہے کہ اُنہوں نےاسلامی انتہا پسندوں کے خلاف فوجیں فراہم کیں اور القاعدہ کے لیڈروں کو حراست میں لیا، تو دُوسری طرف، ’ہیُومن رائٹس واچ‘ تنظیم نے ایک بیان جاری کرکے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے دور حکومت میں مسٹر مشرّف نے حقوق انسانی کو جس طرح پامال کیا۔ اس پر اُن کا احتساب ہونا چاہئیے۔ اور اس تنظیم کے پاکستانی ڈئرکٹر علی دایان حسن کا کہنا ہے کہ مسٹر مشرّف کے خلاف جو الزامات ہیں اُن کا دستاویزی ثبوت موجود ہے، جس کے لئےاُنہیں سنگین قانونی چارہ جوئی سے بچنے نہیں دینا چاہئیے۔
اخبار کہتا ہے کہ اتنے عرصے اپنی مرضی سے جلاوطن رہنے کے بعد ایک نئے سیاسی مستقبل کی امید لے کر پاکستان پہنچے ہیں۔
لیکن، کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک چھوٹے سے مجمعے نے اُن کا نعروں سے استقبال کیا، جِن کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی ہے، لیکن میں پاکستان کو بچانا چاہتا ہوں۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان اور القاعدہ سابق صدر کو ہلاک کرنے کی متعدّد دھمکیاں دے چُکے ہیں، جن سے وُہ اب تک بچے ہوئے ہیں۔ کراچی شہر میں جس پبلک جلسے سے اُنہیں خطاب کرنا تھا اُسے منسوخ کیا گیا۔ اُن کی سیاسی پارٹی کےایک لیڈر اور پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل راشد قریشی کےحوالے سے اخبار نے بتایا ہے کہ حکومت نے اُنہیں اطّلاع دی تھی کہ جنرل مشرّف کی جان کو سنگین خطرہ ہے اور یہ کہ طالبان کئی اطراف سے بندوق برداروں اور خود کُش بمباروں سے حملہ کراکے اُنہیں ہلاک کرنے کی کوشش کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل مشرّف کی اس طرح کی وطن واپسی سے ایسے بُہت سے سوالات اُٹھتے ہیں آیا پاکستان کے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں اُن کا کوئی سیاسی کردار ممکن ہے؟ خاص طور سے اس حقیقت کے پیش نظر کہ اُنہیں سیکیورٹی کی اور قانونی مُشکلات درپیش ہیں۔ مسٹر مشرّف کو کئی عدالتی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ انہیں واپس آنے سےقبل اُن فوجداری مقدّموں میں ضمانت کا انتظام کرنا پڑا تھاجو سابق وزیر اعظم بے نظیر بُھٹو اور نواب اکبر بُگتی کے قتل کے سلسلے میں اُن کے خلاف قائم ہیں۔ اُنہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستانی تجزیہ کار اس امکان کو ردّ کرتے ہیں کہ مسٹر مشرّف اپنا سیاسی اثرونفوذ دوبارہ حاصل کر سکیں گے۔
جنرل مشرف کی پاکستان واپسی پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ سابق صدر، جنہیں فوجداری مقدّموں اور طالبان کی طرف سے قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے، ایک ایسے ملک واپس پہنچے ہیں جو ایک تاریخ ساز سیاسی تبدیلی کے مرحلے سے گُزر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے حکومت اقتدار سے الگ ہو چُکی ہےاور مئی میں انتخابات منعقد ہونا ہیں ، جو اگر پروگرام کے مطابق ہوئے ، تو یہ پہلا موقع ہوگا کہ حکومت کی تبدیلی جمہوری طریقے سے ہوگی۔ سابقہ منتخب حکومتیں یا تو سیاسی جوڑ توڑ یا فوجی انقلاب کی وجہ سے اپنی مدت نہ پوری کر سکیں۔ خود جنرل مشرف فوجی انقلاب کی بدولت میاں نواز شریف کی حکومت کو ہٹا کر اقتدار میں آئے تھے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگلے انتخابات کے بارے میں عام تاثُّر یہی ہے کہ میاں نواز شریف کے اقتدار میں واپس آنے کے قوی امکانات ہیں۔اِن انتخابات میں جنر ل مشرف کی نو خیز سیاسی پارٹی ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ بھی مقابلہ کر رہی ہے۔
اخبار نے بُرکِنز اِنسٹی ٹیُوٹ کے سکالر، برُوس رائیڈر کےحوالے سے بتایا ہے کہ اگر مسٹر مشرّف کے ماضی کے طرزعمل پر گرفتار کر کے اُن پر مقدّمہ چلایا گیا، تو اِس سے فوج میں تشویش پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن، اگر کوئی کاروائی نہ کی گئی تو اس کا دونوں شریف اور بُھٹّو کےحامیوں کی طرف سے سنگین ردِّ عمل ہوگا۔
اخبار کہتا ہےکہ اگر ایک طرف مسٹر مشرّف کو امریکی حکومت اس بات پر تعریف کا مسحق قرار دیا گیا ہے کہ اُنہوں نےاسلامی انتہا پسندوں کے خلاف فوجیں فراہم کیں اور القاعدہ کے لیڈروں کو حراست میں لیا، تو دُوسری طرف، ’ہیُومن رائٹس واچ‘ تنظیم نے ایک بیان جاری کرکے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے دور حکومت میں مسٹر مشرّف نے حقوق انسانی کو جس طرح پامال کیا۔ اس پر اُن کا احتساب ہونا چاہئیے۔ اور اس تنظیم کے پاکستانی ڈئرکٹر علی دایان حسن کا کہنا ہے کہ مسٹر مشرّف کے خلاف جو الزامات ہیں اُن کا دستاویزی ثبوت موجود ہے، جس کے لئےاُنہیں سنگین قانونی چارہ جوئی سے بچنے نہیں دینا چاہئیے۔