واشنگٹن —
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کرپشن کے الزامات کی بناء پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی فوری گرفتاری کے جو احکامات جاری کئے ہیں، اُس پر وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے کہ اس سے عام انتخابات سے قبل ملک کے عدم استحکام کا شکارہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ راجہ پرویز اشرف سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش میں کامیابی نہ ہو سکی۔ اورعدالت کے اس اقدام سے عدم استحکام کی اُس فضاء میں اضافہ ہو گیا ہے جو کئی دنوں سے دیکھنے میں آ رہی ہے اور کینیڈا کے پاکستانی نژاد عالم ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد کی سڑکوں پر دسیوں ہزاروں مظاہرین کے جلوس کی قیادت کی۔ جو سیاست میں بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ پولیس نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ آصف علی زرداری کی حکومت پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں پہلی بار پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے قریب ہے، لیکن اُن کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ گرتا جا رہا ہے۔ کیونکہ معاشی حالات ابتر ہو رہے ہیں، وسیع پیمانے پرکرپشن ہو رہی ہے اور اسلامی انتہا پسندوں کی اُس بغاوت کو کچلنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ جس کے بارے میں امریکہ کا یہ موقف ہے کہ اُس نے افغانستان کی جنگ کے مقاصد میں پیچیدگیا ں پیدا کر دی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وزیراعظم کی گرفتاری کے احکامات کے بعد ملک کے بازار حصّص کا انڈیکس تین فی صد گر گیا، کیونکہ سرمایہ کاروں کو اندیشہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام مزید پھیلے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ حکومت پر لازم ہے کہ وُہ مئی کے اوائل سے پہلے لازمی طور پرعام انتخابات کرائے۔ ملک کے آئین کے مطابق حکومت اور حزب اختلاف کومل کر انتخابات کرانے کے لئےایک نگران حکومت تشکیل دینی ہے ۔اور اس میں نہ فوج کا اور نہ ہی عدلیہ کا کوئی کردار ہے ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے سنہ 2008میں وکلاء کی تحریک کے بعد پاکستانی سیاست میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض سیاست داانوں کا دعویٰ ہے کہ فوج ڈاکٹر قادری کی تحریک کی حمایت کر رہی ہے، جس کی فوج نے تردید کر دی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ حکومت کی مردم آزاری کر رہی ہے۔ اوراخبار نے صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابرکے حوالے سے بتایا ہے، کہ حکومت اس قسم کے بہت سے خطرے سہہ چکی ہے اور وہ اس خطرے سے بھی نمٹ لے گی۔
ادھر واشنگٹن پوسٹ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق جب سے ڈاکٹرطاہر القادری پاکستان آئے ہیں، اُن کی ولولہ انگیز تقریروں نے بہت سے پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔جن کو حکومت سے سخت مایوسی ہے کیونکہ اُن کو شکایت ہے کہ انہیں اس حکومت کے پانچ سالہ دور میں بے روزگاری، بجلی سے محرومی، اور دہشت گردوں کے حملوں کے علاوہ کُچھ نہیں ملا۔
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر قادری نے اسلام آباد میں بلیٹ پروف گاڑی سے ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا مینڈیٹ ختم ہو چُکا ہے اور مطالبہ کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جایئں ورنہ لوگ یہ کام خود کریں گے۔ ڈاکٹر قادری کا دعویٰ تھا کہ اس احتجاجی مظاہرے میں اُن کا ساتھ دینے والوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوزکر گئی ہے۔ لیکن اس شہر کے ایک عہدہ دار کے مطا بق یہ تعداد لگ بھگ تیس ہزار تھی۔
نیو یارک ٹائمز نے ایک اداریے میں بارودی اسلحے سے عوام کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی فوری قدم اُٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیو ٹاؤن کنٹی کٹ میں بیس بچوں اور سات بالغوں کے قتل عام کے ایک ماہ بعد نائب صدر جو بائیڈن نئے قوانین کے بارے میں سفارشات پیش کرنے والے ہیں، اور یہ لازم ہے کہ اُن کا پینل صحیح تجاویز دے اور کانگریس ان پر فوری طور پر کاروائی کرے ۔ نیو ٹاؤن میں مرنے والے بچوں کی یاد ابھی تازہ ہے۔ اور اگر قانون سازوں نے کُچھ نہ کیا تو پبلک اُنہیں حقارت کی نظر سے دیکھے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ راجہ پرویز اشرف سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش میں کامیابی نہ ہو سکی۔ اورعدالت کے اس اقدام سے عدم استحکام کی اُس فضاء میں اضافہ ہو گیا ہے جو کئی دنوں سے دیکھنے میں آ رہی ہے اور کینیڈا کے پاکستانی نژاد عالم ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد کی سڑکوں پر دسیوں ہزاروں مظاہرین کے جلوس کی قیادت کی۔ جو سیاست میں بدعنوانیوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ پولیس نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ آصف علی زرداری کی حکومت پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں پہلی بار پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے قریب ہے، لیکن اُن کی مقبولیت کا گراف تیزی کے ساتھ گرتا جا رہا ہے۔ کیونکہ معاشی حالات ابتر ہو رہے ہیں، وسیع پیمانے پرکرپشن ہو رہی ہے اور اسلامی انتہا پسندوں کی اُس بغاوت کو کچلنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ جس کے بارے میں امریکہ کا یہ موقف ہے کہ اُس نے افغانستان کی جنگ کے مقاصد میں پیچیدگیا ں پیدا کر دی ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ وزیراعظم کی گرفتاری کے احکامات کے بعد ملک کے بازار حصّص کا انڈیکس تین فی صد گر گیا، کیونکہ سرمایہ کاروں کو اندیشہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام مزید پھیلے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ حکومت پر لازم ہے کہ وُہ مئی کے اوائل سے پہلے لازمی طور پرعام انتخابات کرائے۔ ملک کے آئین کے مطابق حکومت اور حزب اختلاف کومل کر انتخابات کرانے کے لئےایک نگران حکومت تشکیل دینی ہے ۔اور اس میں نہ فوج کا اور نہ ہی عدلیہ کا کوئی کردار ہے ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے سنہ 2008میں وکلاء کی تحریک کے بعد پاکستانی سیاست میں زبردست کردار ادا کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعض سیاست داانوں کا دعویٰ ہے کہ فوج ڈاکٹر قادری کی تحریک کی حمایت کر رہی ہے، جس کی فوج نے تردید کر دی ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ حکومت کی مردم آزاری کر رہی ہے۔ اوراخبار نے صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابرکے حوالے سے بتایا ہے، کہ حکومت اس قسم کے بہت سے خطرے سہہ چکی ہے اور وہ اس خطرے سے بھی نمٹ لے گی۔
ادھر واشنگٹن پوسٹ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق جب سے ڈاکٹرطاہر القادری پاکستان آئے ہیں، اُن کی ولولہ انگیز تقریروں نے بہت سے پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے۔جن کو حکومت سے سخت مایوسی ہے کیونکہ اُن کو شکایت ہے کہ انہیں اس حکومت کے پانچ سالہ دور میں بے روزگاری، بجلی سے محرومی، اور دہشت گردوں کے حملوں کے علاوہ کُچھ نہیں ملا۔
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر قادری نے اسلام آباد میں بلیٹ پروف گاڑی سے ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا مینڈیٹ ختم ہو چُکا ہے اور مطالبہ کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دی جایئں ورنہ لوگ یہ کام خود کریں گے۔ ڈاکٹر قادری کا دعویٰ تھا کہ اس احتجاجی مظاہرے میں اُن کا ساتھ دینے والوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوزکر گئی ہے۔ لیکن اس شہر کے ایک عہدہ دار کے مطا بق یہ تعداد لگ بھگ تیس ہزار تھی۔
نیو یارک ٹائمز نے ایک اداریے میں بارودی اسلحے سے عوام کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی فوری قدم اُٹھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیو ٹاؤن کنٹی کٹ میں بیس بچوں اور سات بالغوں کے قتل عام کے ایک ماہ بعد نائب صدر جو بائیڈن نئے قوانین کے بارے میں سفارشات پیش کرنے والے ہیں، اور یہ لازم ہے کہ اُن کا پینل صحیح تجاویز دے اور کانگریس ان پر فوری طور پر کاروائی کرے ۔ نیو ٹاؤن میں مرنے والے بچوں کی یاد ابھی تازہ ہے۔ اور اگر قانون سازوں نے کُچھ نہ کیا تو پبلک اُنہیں حقارت کی نظر سے دیکھے گی۔