واشنگٹن —
سال ہا سال، کئی جنگوں میں شرکت کے بعد امریکہ واپس پہنچنے پر، امریکی فوجیں کس طرح چھاؤنی کے معمولات سے مانوس ہو رہی ہیں، اس پر ’نیویارک ٹائمز‘ کے ٹام شنکر ایک تجزئے میں کہتے ہیں کہ11 ستمبر 2001 ء کے بعد، جو 20 لاکھ امریکی مرد اور عورتیں جنگ لڑنے سمندر پار گئے تھے، وُہ اب اپنی زندگیوں کے نئے دور سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اِن میں سے آدھے سے زیادہ لوگ فو ج سے برابر وابستہ ہیں اور سارے امریکہ میں دوسرے فوجیوں کی طرح اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ اپنے غیر یقینی مستقبل کے ساتھ کیسے نباہ کیا جائے۔ اُن کی یہ بےچینی خاص طور پر فوج کے لئے ایک چیلنج ہے، جس نے نائن الیون کے بعد 13 لاکھ سے زیادہ فوجی جنگ لڑنے کے لئے روانہ کئے اور اس طرح، ایک ایسی فوج تیار کرلی ہے، جس کا قوم کی تاریخ میں لڑائی کا سب سے زیادہ تجربہ ہے۔
لیکن، اُسے اُن فوجیوں کا مورال بر قرار رکھنے کا چیلنج بھی درپیش ہے، جو اب امریکی فوجی اڈّوں پر واپس پہنچ چکے ہیں، اور چھاونی کی زندگی گذار رہے ہیں، جہاں سے انہیں کسی بھی وقت دوبارہ محاذ پر بھیجا جا سکتا ہے۔
فو ج کے چیف آف سٹاف، جنرل رے او ڈئے رو، جو عراق میں کئی مرتبہ ڈیوٹی کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اُن کے جوان اب دوسرے ملکوں کی فوجوں کے ساتھ سمندرپار جنگی مشقوں میں مصروف رہیں گے اور ضرورت پڑنے کی صورت میں گڑبڑ والے علاقوں میں بھیجے جا سکتے ہیں۔ وہ نصابی تربیت کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، جو جنگوں کے اس دور میں پس منظر میں چلا گیا تھا۔
جنرل ٹاؤن سینڈ دسویں ماؤنٹِن ڈویژن کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ یہ ڈویژن افغانستان کی جنگ میں جانے والی پہلی ڈویژن تھی، اور اس سال کے اواخر تک نیٹو مشن کے خاتمے کے سلسلے میں جنرل ٹاؤن سینڈ مشرقی افغانستان جا رہے ہیں۔
ٹام شنکر کہتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو اتنی بھاری تعداد میں فوجی فراہم نہیں کئے گئے تھے، جتنی کہ انسداد بغاوت کی حکمت عملی کا تقاضہ تھا۔ نتیجتہً اُنہیں سابقہ جنگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع علاقوں کا انتظام سنبھالنا پڑتا تھا، خاص طور پر انتظامی اور اقتصادی ترقّی کے شُعبوں میں۔ ایک عشرے قبل جو کام کرنل سنبھالتے تھے اب وہ کیپٹنوں کو سونپا گیا۔ جبکہ، کرنلوں نے جنرلوں کی ذمّہ داریاں لے لیں، اور جنرلوں کو جو وسائیل دستیاب تھے، وہ کئی ملکوں کی دفاع کی وزارتوں کے مجموعی وسائیل سے زیادہ تھے۔
زمانہٴ امن کی مراجعت کے بارے میں فوجی کمانڈر کہتے ہیں کہ اُنہیں ملک کے اندر ڈسپلِن کے زیادہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نوجوان سپاہی بار بار متعدّد لڑائیوں میں موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ کر نکلتے ہیں۔ تو ان میں سے بعض کو یہ خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، اور وہ خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہیں یا نشہ کرنے لگتے ہیں یا زیادہ شراب کے عادی ہو جاتے ہیں ۔اور فوج کے لیڈروں کو اندازہ ہے کہ اُنہیں ایسے مسائیل پیدا ہونے کی صورت میں خصوصی توجّہ دینی پڑے گی۔
ٹام شنکر نے امریکی فوج کے 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کی ایک حالیہ جنگی مشق کا ذکر کیا ہے جو صرف ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نقل و حرکت کرتی ہے۔ اس جنگی مشق میں ساڑھے سات ہزار فوجیوں نے شرکت کی، جس میں ایک غیر ملکی سیاسی بُّحران کی وجہ سے خطرے میں گھرے ہوئے شہریوں کو نکالنا تھا اور افراتفری کے شکار ایک ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کے ایک ڈیپو کو محفوظ بنانا تھا۔ یہ ڈویژن پچھلے بارہ سال کے دوران عراق اور افغانستان میں ڈیوٹی سرانجام دے کر واپس امریکہ آگیا ہے۔
رابرٹ گیٹس جب وزیر دفاع تھے۔ تو اُنہوں نےکہا تھا کہ مستقبل کا وزیر دفاع اگر صدر کو بھاری تعداد میں برّی فوج مشرق وسطیٰ یا افریقہ بھیجنے کا مشورہ دے، تو اس کے دماغ کا معائنہ کرنا چاہئے۔
اس کے بدلے، کمانڈروں کا کہنا ہے کہ کم نفری والی اور تیزی سے نقل و حرکت کرنے والی ایسی یونٹیں ترتیب دینے کی ضرورت ہےجو آفات کی صورت میں امداد فراہم کر سکیں،، سفارت خانوں کو تحفّظ فراہم کر سکیں، ہوائی اڈّوں کو قبضے میں لاسکیں اور دوسرے چھوٹے بڑے ہنگامی فرائض سر انجام دے سکیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ، دُشمن کی جارحانہ کاروائی کا بھی تدارُک کرسکیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ساڑھے سات سو فوجیوں پر مشتمل بٹالین کو سمندر پار ڈیوٹی پر بھیجنے میں اٹھارہ گھنٹوں سے زیادہ نہ لگیں، اور ساڑھے تین ہزار نفری والے برگیڈ کو محض دو دن لگیں۔
پاکستان میں پشاور اور راولپنڈی میں اتوار اور پیر کو یکے بعد دیگرے، بم دہماکوں کے بارے میں ’لاس انجلس ٹائمز‘ اخبار کہتا ہے کہ اگر ایک طرف یہ طالبان کے حملوں میں اضافے کی نشان دہی کرتے ہیں، تو دوسری طرف ان کی وجہ سے اُن کوششوں کے بارے میں نئے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، جو وزیر اعظم نواز شریف اس باغی تنظیم کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے کر رہے ہیں۔ باوجودیکہ، یہ تنظیم اُن کی حکُومت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے، تاکہ ایک سخت گیر اسلامی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اخبار سیکیورٹی عہدہ داروں کے حوالے سے کہتا ہے کہ راولپنڈی میں ایک خود کُش بمبار کی امکانی موجودگی کے بارے میں انٹلی جنس رپورٹیں مل چُکی تھیں، اور ایک سائیکل سوار کو جنرل ہیڈکوارٹرز کے برابر فوجی چیک پواینٹ کی طرف جاتے ہوئے جب پولیس نے روکنے کوشش کی تو اُس نے دھماکہ کر دیا، جس میں سیکیورٹی کے چھ اہل کاروں سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے۔
طالبان کے ترجمان نے اسے قبائلی علاقے میں ان کے خلاف فوجی اوپریشن کے خلاف انتقامی کاروائی قرار دیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فوجوں کو قبائیی علاقے میں موجود باغی اکثر نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ علاقہ طالبان کے لئے جو افغانستان میں نیٹو فوجوں سے بر سر پیکار ہیں، ایک آماجگاہ کا کام دیتا ہے۔ راولپنڈی جیسے شہر پر جہاں زبردست سیکیورٹی کا انتظام ہے،طالبان کے حملے شاذ ہی ہوتے ہیں۔ البتہ، اکتوبر سنہ 2009 میں طالبان کمانڈوز نے فوج کے ہیڈکوارز کا محاصرہ کر لیا تھا، جو 22 گھنٹے جاری رہا اور جس میں نو عسکریت پسندوں سمیت، 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اِن میں سے آدھے سے زیادہ لوگ فو ج سے برابر وابستہ ہیں اور سارے امریکہ میں دوسرے فوجیوں کی طرح اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ اپنے غیر یقینی مستقبل کے ساتھ کیسے نباہ کیا جائے۔ اُن کی یہ بےچینی خاص طور پر فوج کے لئے ایک چیلنج ہے، جس نے نائن الیون کے بعد 13 لاکھ سے زیادہ فوجی جنگ لڑنے کے لئے روانہ کئے اور اس طرح، ایک ایسی فوج تیار کرلی ہے، جس کا قوم کی تاریخ میں لڑائی کا سب سے زیادہ تجربہ ہے۔
لیکن، اُسے اُن فوجیوں کا مورال بر قرار رکھنے کا چیلنج بھی درپیش ہے، جو اب امریکی فوجی اڈّوں پر واپس پہنچ چکے ہیں، اور چھاونی کی زندگی گذار رہے ہیں، جہاں سے انہیں کسی بھی وقت دوبارہ محاذ پر بھیجا جا سکتا ہے۔
فو ج کے چیف آف سٹاف، جنرل رے او ڈئے رو، جو عراق میں کئی مرتبہ ڈیوٹی کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اُن کے جوان اب دوسرے ملکوں کی فوجوں کے ساتھ سمندرپار جنگی مشقوں میں مصروف رہیں گے اور ضرورت پڑنے کی صورت میں گڑبڑ والے علاقوں میں بھیجے جا سکتے ہیں۔ وہ نصابی تربیت کو بھی دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، جو جنگوں کے اس دور میں پس منظر میں چلا گیا تھا۔
جنرل ٹاؤن سینڈ دسویں ماؤنٹِن ڈویژن کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ یہ ڈویژن افغانستان کی جنگ میں جانے والی پہلی ڈویژن تھی، اور اس سال کے اواخر تک نیٹو مشن کے خاتمے کے سلسلے میں جنرل ٹاؤن سینڈ مشرقی افغانستان جا رہے ہیں۔
ٹام شنکر کہتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو اتنی بھاری تعداد میں فوجی فراہم نہیں کئے گئے تھے، جتنی کہ انسداد بغاوت کی حکمت عملی کا تقاضہ تھا۔ نتیجتہً اُنہیں سابقہ جنگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع علاقوں کا انتظام سنبھالنا پڑتا تھا، خاص طور پر انتظامی اور اقتصادی ترقّی کے شُعبوں میں۔ ایک عشرے قبل جو کام کرنل سنبھالتے تھے اب وہ کیپٹنوں کو سونپا گیا۔ جبکہ، کرنلوں نے جنرلوں کی ذمّہ داریاں لے لیں، اور جنرلوں کو جو وسائیل دستیاب تھے، وہ کئی ملکوں کی دفاع کی وزارتوں کے مجموعی وسائیل سے زیادہ تھے۔
زمانہٴ امن کی مراجعت کے بارے میں فوجی کمانڈر کہتے ہیں کہ اُنہیں ملک کے اندر ڈسپلِن کے زیادہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نوجوان سپاہی بار بار متعدّد لڑائیوں میں موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ کر نکلتے ہیں۔ تو ان میں سے بعض کو یہ خوش فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، اور وہ خطرناک ڈرائیونگ کرتے ہیں یا نشہ کرنے لگتے ہیں یا زیادہ شراب کے عادی ہو جاتے ہیں ۔اور فوج کے لیڈروں کو اندازہ ہے کہ اُنہیں ایسے مسائیل پیدا ہونے کی صورت میں خصوصی توجّہ دینی پڑے گی۔
ٹام شنکر نے امریکی فوج کے 82 ویں ایئر بورن ڈویژن کی ایک حالیہ جنگی مشق کا ذکر کیا ہے جو صرف ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نقل و حرکت کرتی ہے۔ اس جنگی مشق میں ساڑھے سات ہزار فوجیوں نے شرکت کی، جس میں ایک غیر ملکی سیاسی بُّحران کی وجہ سے خطرے میں گھرے ہوئے شہریوں کو نکالنا تھا اور افراتفری کے شکار ایک ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کے ایک ڈیپو کو محفوظ بنانا تھا۔ یہ ڈویژن پچھلے بارہ سال کے دوران عراق اور افغانستان میں ڈیوٹی سرانجام دے کر واپس امریکہ آگیا ہے۔
رابرٹ گیٹس جب وزیر دفاع تھے۔ تو اُنہوں نےکہا تھا کہ مستقبل کا وزیر دفاع اگر صدر کو بھاری تعداد میں برّی فوج مشرق وسطیٰ یا افریقہ بھیجنے کا مشورہ دے، تو اس کے دماغ کا معائنہ کرنا چاہئے۔
اس کے بدلے، کمانڈروں کا کہنا ہے کہ کم نفری والی اور تیزی سے نقل و حرکت کرنے والی ایسی یونٹیں ترتیب دینے کی ضرورت ہےجو آفات کی صورت میں امداد فراہم کر سکیں،، سفارت خانوں کو تحفّظ فراہم کر سکیں، ہوائی اڈّوں کو قبضے میں لاسکیں اور دوسرے چھوٹے بڑے ہنگامی فرائض سر انجام دے سکیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ، دُشمن کی جارحانہ کاروائی کا بھی تدارُک کرسکیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ساڑھے سات سو فوجیوں پر مشتمل بٹالین کو سمندر پار ڈیوٹی پر بھیجنے میں اٹھارہ گھنٹوں سے زیادہ نہ لگیں، اور ساڑھے تین ہزار نفری والے برگیڈ کو محض دو دن لگیں۔
پاکستان میں پشاور اور راولپنڈی میں اتوار اور پیر کو یکے بعد دیگرے، بم دہماکوں کے بارے میں ’لاس انجلس ٹائمز‘ اخبار کہتا ہے کہ اگر ایک طرف یہ طالبان کے حملوں میں اضافے کی نشان دہی کرتے ہیں، تو دوسری طرف ان کی وجہ سے اُن کوششوں کے بارے میں نئے سوالات کھڑے ہوتے ہیں، جو وزیر اعظم نواز شریف اس باغی تنظیم کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے کر رہے ہیں۔ باوجودیکہ، یہ تنظیم اُن کی حکُومت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہے، تاکہ ایک سخت گیر اسلامی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اخبار سیکیورٹی عہدہ داروں کے حوالے سے کہتا ہے کہ راولپنڈی میں ایک خود کُش بمبار کی امکانی موجودگی کے بارے میں انٹلی جنس رپورٹیں مل چُکی تھیں، اور ایک سائیکل سوار کو جنرل ہیڈکوارٹرز کے برابر فوجی چیک پواینٹ کی طرف جاتے ہوئے جب پولیس نے روکنے کوشش کی تو اُس نے دھماکہ کر دیا، جس میں سیکیورٹی کے چھ اہل کاروں سمیت 13 افراد ہلاک ہوگئے۔
طالبان کے ترجمان نے اسے قبائلی علاقے میں ان کے خلاف فوجی اوپریشن کے خلاف انتقامی کاروائی قرار دیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فوجوں کو قبائیی علاقے میں موجود باغی اکثر نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ علاقہ طالبان کے لئے جو افغانستان میں نیٹو فوجوں سے بر سر پیکار ہیں، ایک آماجگاہ کا کام دیتا ہے۔ راولپنڈی جیسے شہر پر جہاں زبردست سیکیورٹی کا انتظام ہے،طالبان کے حملے شاذ ہی ہوتے ہیں۔ البتہ، اکتوبر سنہ 2009 میں طالبان کمانڈوز نے فوج کے ہیڈکوارز کا محاصرہ کر لیا تھا، جو 22 گھنٹے جاری رہا اور جس میں نو عسکریت پسندوں سمیت، 23 افراد ہلاک ہوئے تھے۔