واشنگٹن —
امریکہ نے باقی ماندہ تین چینی یغور مسلمانوں کو گوانتانامو بے کے امریکی فوجی حراستی مرکز سے رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے، اِسے ایک ’اہم سنگ میل‘ قرار دیا ہے۔
منگل کو جاری ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اُنھیں ہوائی جہاز کے ذریعےسلوواکیا کے دارالحکومت ’براتیسلاوا‘ لے جایا گیا ہے، جہاں امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ’رضاکارانہ طور پر آبادکاری‘ کے خواہشمند ہیں۔ ایک رپورٹ میں سلوواکیا کی وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اُن میں سے کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام نہیں ہے۔
گواناتانامو میں اس وقت 155 قیدی ہیں، جب کہ کسی وقت اِن کی تعداد 750سے زائد تھی۔ اِن میں سے متعدد قیدی ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے بند ہیں، جب کہ کئی سال قبل درجنوں کو رہا کیا گیا تھا۔
امریکہ نےکہا ہے کہ یغور قیدیوں کو چین منتقل کرنے سے انکار اِس لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ اُن سے بُرے برتاؤ کا خدشہلاحق ہے۔
چین یغور منحرفین کے خلاف شدید کارروائی کرتا آیا ہے، جو چین کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔
سلوواکیا یورپی یونین اور نیٹو کا رُکن ہے، جِس نے 2010ء میں بھی گوانتانامو کے تین قیدی قبول کیے تھے۔
سنہ 2001سے کیوبا کی سرزمین پر قائم اس قیدخانے میں امریکی افواج کی طرف سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں حراست میں لیا گیا، اور اِن مشتبہ افراد کو یہاں قید رکھا گیا۔
امریکی محکمہٴدفاع کے ایک بیان میں اِن تینوں یغور باشندوں کے نام یوسف عباس، سعید اللہ خالق اور حاجی ابو بکر عبدالغفار بتائے گئے ہیں۔ اس سے قبل، پینٹاگان کے پریس سکریٹری، ریئر ایڈمرل جان کِربی کے بقول، نسلی طور پر یہ تینوں یغور چینی ہیں جنھیں منتقل کیا جارہا ہے۔
پینٹاگان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کی منتقلی اور آبادکاری گوانتانامو بے کی حراستی تنصیب کو بند کرنے کی کوششوں کے حوالے سے ’ایک سنگ ِمیل کا درجہ رکھتی ہے‘۔ اُنھوں نے سلوواک حکومت کے انسانی ہمدردی کے اس عمل پر شکریہ ادا کیا۔
ادھر، ’وکی لیکس‘ کی ویب سائٹ پر قیدیوں سے متعلق شائع ہونے والی فہرست کے مطابق، افغانستان میں پکڑے گئے اِن 22 چینی یغور باشندوں کو امریکی فوج نے گوانتانامو میں حراست میں رکھا تھا۔ متعدد بقیہ قیدیوں کا تعلق یمن نے سے ہے، جن میں سے56 کو رہائی اور منتقلی کی اجازت مل چکی ہے۔ اُنھیں لڑاکا دشمن یا امریکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث نہ ہونے پر رہائی کے قابل قرار دیا گیا ہے۔
تاہم، باوجود یہ کہ امریکہ نے اس سال کے اوائل میں یمن کے اِن قیدیوں پر سے منتقلی کی پابندی ہٹا لی ہے، وہ ابھی تک رہا نہیں ہو پائے۔ اس سال کے آغاز پر، گوانتانامو میں 100سے زائد قیدیوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔
اپریل میں، امریکی صدر براک اوباما نے اس قیدخانے کو بند کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے، اِنھیں امریکہ کی بین الاقوامی مؤقف کے لیے بے فائدہ اور نقصاندہ قرار دیا تھا۔
اِس سے قبل، چھ یغور باشندوں کو گوانتانامو سے پیسیفک کے جزیرہ نما ملک، ’پالاؤ‘ روانہ کیا گیا، جب کہ دیگر 11 کو برمودا، البانیہ اور سوٹزرلینڈ منتقل کیا گیا تھا۔
یغور زیادہ تر مسلمان ہیں، جو ترک زبان بولنے والی ایک اقلیت ہے جو چین کے مغربی سنکیانگ علاقے میں رہتے ہیں۔
منگل کو جاری ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اُنھیں ہوائی جہاز کے ذریعےسلوواکیا کے دارالحکومت ’براتیسلاوا‘ لے جایا گیا ہے، جہاں امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ’رضاکارانہ طور پر آبادکاری‘ کے خواہشمند ہیں۔ ایک رپورٹ میں سلوواکیا کی وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اُن میں سے کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام نہیں ہے۔
گواناتانامو میں اس وقت 155 قیدی ہیں، جب کہ کسی وقت اِن کی تعداد 750سے زائد تھی۔ اِن میں سے متعدد قیدی ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے سے بند ہیں، جب کہ کئی سال قبل درجنوں کو رہا کیا گیا تھا۔
امریکہ نےکہا ہے کہ یغور قیدیوں کو چین منتقل کرنے سے انکار اِس لیے کیا جا رہا ہے، کیونکہ اُن سے بُرے برتاؤ کا خدشہلاحق ہے۔
چین یغور منحرفین کے خلاف شدید کارروائی کرتا آیا ہے، جو چین کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔
سلوواکیا یورپی یونین اور نیٹو کا رُکن ہے، جِس نے 2010ء میں بھی گوانتانامو کے تین قیدی قبول کیے تھے۔
سنہ 2001سے کیوبا کی سرزمین پر قائم اس قیدخانے میں امریکی افواج کی طرف سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں حراست میں لیا گیا، اور اِن مشتبہ افراد کو یہاں قید رکھا گیا۔
امریکی محکمہٴدفاع کے ایک بیان میں اِن تینوں یغور باشندوں کے نام یوسف عباس، سعید اللہ خالق اور حاجی ابو بکر عبدالغفار بتائے گئے ہیں۔ اس سے قبل، پینٹاگان کے پریس سکریٹری، ریئر ایڈمرل جان کِربی کے بقول، نسلی طور پر یہ تینوں یغور چینی ہیں جنھیں منتقل کیا جارہا ہے۔
پینٹاگان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُن کی منتقلی اور آبادکاری گوانتانامو بے کی حراستی تنصیب کو بند کرنے کی کوششوں کے حوالے سے ’ایک سنگ ِمیل کا درجہ رکھتی ہے‘۔ اُنھوں نے سلوواک حکومت کے انسانی ہمدردی کے اس عمل پر شکریہ ادا کیا۔
ادھر، ’وکی لیکس‘ کی ویب سائٹ پر قیدیوں سے متعلق شائع ہونے والی فہرست کے مطابق، افغانستان میں پکڑے گئے اِن 22 چینی یغور باشندوں کو امریکی فوج نے گوانتانامو میں حراست میں رکھا تھا۔ متعدد بقیہ قیدیوں کا تعلق یمن نے سے ہے، جن میں سے56 کو رہائی اور منتقلی کی اجازت مل چکی ہے۔ اُنھیں لڑاکا دشمن یا امریکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث نہ ہونے پر رہائی کے قابل قرار دیا گیا ہے۔
تاہم، باوجود یہ کہ امریکہ نے اس سال کے اوائل میں یمن کے اِن قیدیوں پر سے منتقلی کی پابندی ہٹا لی ہے، وہ ابھی تک رہا نہیں ہو پائے۔ اس سال کے آغاز پر، گوانتانامو میں 100سے زائد قیدیوں نے بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔
اپریل میں، امریکی صدر براک اوباما نے اس قیدخانے کو بند کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے، اِنھیں امریکہ کی بین الاقوامی مؤقف کے لیے بے فائدہ اور نقصاندہ قرار دیا تھا۔
اِس سے قبل، چھ یغور باشندوں کو گوانتانامو سے پیسیفک کے جزیرہ نما ملک، ’پالاؤ‘ روانہ کیا گیا، جب کہ دیگر 11 کو برمودا، البانیہ اور سوٹزرلینڈ منتقل کیا گیا تھا۔
یغور زیادہ تر مسلمان ہیں، جو ترک زبان بولنے والی ایک اقلیت ہے جو چین کے مغربی سنکیانگ علاقے میں رہتے ہیں۔