صدر اوبامہ نے اگلے ماہ ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پُوٹن کے ساتھ سربراہ ملاقات کو منسوخ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس پر ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ کے اس فیصلے سے چھ دن قبل روس نے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کو ایک سال کی عارضی سیاسی پناہ دی تھی۔ باوجودیکہ، امریکی صدر نے روس سے بار بار مطالبہ کیا تھا کہ وہ سنوڈن کو امریکہ کے حوالے کردے،جِس نے امریکی دیکھ بھال کے خفیہ پروگرام کے بارے میں معلومات افشا کی تھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی روسی تعلقات میں بگاڑ کی وجہ محض سنو ڈن نہیں ہے۔ مسٹر اوبا مہ کی پہلی میعاد صدارت کے بعد وہائٹ ہاؤس نے روس کو پیشکش کی تھی کہ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے اور شام میں خانہ جنگی ختم کرانے کے لئے مشترکہ کوشش کی جائے۔ لیکن، دونوں میں سے کسی پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ چنانچہ، ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر اوبامہ نے روس اور اس کے صدر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی صدر کے ماسکو نہ آنے کے فیصلے پر بھی کریملن کی طرف سے بھی ایسی ہی مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مسٹر پوٹن کے ایک معاون نے اس کے لئے سنوڈن کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ لیکن، کہا کہ روس پر اِس کی کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔
ترجمان نے شکائت کی کہ کئی سال سے امریکہ نے روس کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات بڑھانے اور ایسا معاہدہ کرنے سے گُریز کیا ہے، جس کے تحت، دونوں ملک مقدمے میں مطلوب افراد کو ایک دوسرے کے یہاں بھیج دیا کریں، اور یہ کہ جب بھی روس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ روسی سرزمین پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اس کے حوالے کردیا جائے تو ، امریکہ نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت نے عوام میں مقبول اور عالمی شہرت یافتہ گرامین بنک کو سرکاری تحویل میں لینے کی جو مہم چلا رکھی ہے، اس پر اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے کڑی تنقید کی ہے۔
اخبار کہتا ہےکہ یہ وہ بنک ہے جس نے ان غریب خواتین کو چھوٹے چھوٹے قرضے فراہم کرنے میں پہل کی تھی، جو اپنا چھوٹا کاروبار شروع کرنا چاہتی تھیں، جس ی وجہ سے اس بنک کا بڑا نام ہو گیا۔
اخبار نے بنگلہ دیشی قانون سازوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس تباہ کن تجویز کو یکسر مسترد کر دیں اور اس اہم مالیاتی ادارے میں دخل در معقولات سے پرہیز کریں، جو 84 لاکھ دیہاتی خواتین کی خدمت کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے دو برس سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے گرامین بنک اور اس کے نوبیل امن انعام یافتہ بانی محمد یونس کے خلاف تباہ کُن مہم چلا رکھی ہے۔ اخبار کا خیال ہے کہ مسٹر یونس کے خلاف شیخ حسینہ نے یہ مہم اس لئے چلا رکھی ہے کہ انہوں نے سنہ 2007 میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ، انہوں نے اس دھمکی پر عمل در آمد نہیں کیا، سنہ 2011 میں بالآخرانہیں بنک کے مینیجنگ ڈئریکٹر کے عہدے سے اس بنا پر سبکدوش کر دیا گیاکہ وہ 60 سال کے ہو چکے ہیں، حکومت نے بنک کے خلاف تفتیش شروع کر دی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کیا فیصلہ کرتی ہیں ، انہوں نے کوئی تسلّی بخش شواہد پیش نہیں کئے ہیں، جن کی بنا پر قرضے کی فراہمی کی اس نہائت ہی امید افزا تحریک کا ڈھانچہ مسمار کیا جائے،جس سے ملک کی لاکھوں خواتین نے استفادہ کیا ہے۔
معروف کالم نگار ٹام فریڈمان نے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات پانچ سال کے وقفے کے بعد
دوبارہ شروع کرانے کو امریکی وزیر خارجہ جان کئیری کا ایک بڑا کار نامہ قرار دیا ہے۔
’ہیرلڈ ٹربیون‘ میں ایک کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ انہیں مسٹر کیری کی اُس استقامت کے لئے بڑا احترام ہے جس کی بدولت وہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن، وزیر خارجہ کی اس تعریف کے ساتھ ساتھ، فریڈمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی معاہدہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی روسی تعلقات میں بگاڑ کی وجہ محض سنو ڈن نہیں ہے۔ مسٹر اوبا مہ کی پہلی میعاد صدارت کے بعد وہائٹ ہاؤس نے روس کو پیشکش کی تھی کہ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے اور شام میں خانہ جنگی ختم کرانے کے لئے مشترکہ کوشش کی جائے۔ لیکن، دونوں میں سے کسی پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ چنانچہ، ایک ٹی وی انٹرویو میں صدر اوبامہ نے روس اور اس کے صدر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی صدر کے ماسکو نہ آنے کے فیصلے پر بھی کریملن کی طرف سے بھی ایسی ہی مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مسٹر پوٹن کے ایک معاون نے اس کے لئے سنوڈن کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ لیکن، کہا کہ روس پر اِس کی کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔
ترجمان نے شکائت کی کہ کئی سال سے امریکہ نے روس کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات بڑھانے اور ایسا معاہدہ کرنے سے گُریز کیا ہے، جس کے تحت، دونوں ملک مقدمے میں مطلوب افراد کو ایک دوسرے کے یہاں بھیج دیا کریں، اور یہ کہ جب بھی روس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ روسی سرزمین پر جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اس کے حوالے کردیا جائے تو ، امریکہ نے ہمیشہ انکار کیا ہے۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت نے عوام میں مقبول اور عالمی شہرت یافتہ گرامین بنک کو سرکاری تحویل میں لینے کی جو مہم چلا رکھی ہے، اس پر اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے کڑی تنقید کی ہے۔
اخبار کہتا ہےکہ یہ وہ بنک ہے جس نے ان غریب خواتین کو چھوٹے چھوٹے قرضے فراہم کرنے میں پہل کی تھی، جو اپنا چھوٹا کاروبار شروع کرنا چاہتی تھیں، جس ی وجہ سے اس بنک کا بڑا نام ہو گیا۔
اخبار نے بنگلہ دیشی قانون سازوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس تباہ کن تجویز کو یکسر مسترد کر دیں اور اس اہم مالیاتی ادارے میں دخل در معقولات سے پرہیز کریں، جو 84 لاکھ دیہاتی خواتین کی خدمت کرتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ پچھلے دو برس سے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے گرامین بنک اور اس کے نوبیل امن انعام یافتہ بانی محمد یونس کے خلاف تباہ کُن مہم چلا رکھی ہے۔ اخبار کا خیال ہے کہ مسٹر یونس کے خلاف شیخ حسینہ نے یہ مہم اس لئے چلا رکھی ہے کہ انہوں نے سنہ 2007 میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ، انہوں نے اس دھمکی پر عمل در آمد نہیں کیا، سنہ 2011 میں بالآخرانہیں بنک کے مینیجنگ ڈئریکٹر کے عہدے سے اس بنا پر سبکدوش کر دیا گیاکہ وہ 60 سال کے ہو چکے ہیں، حکومت نے بنک کے خلاف تفتیش شروع کر دی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کیا فیصلہ کرتی ہیں ، انہوں نے کوئی تسلّی بخش شواہد پیش نہیں کئے ہیں، جن کی بنا پر قرضے کی فراہمی کی اس نہائت ہی امید افزا تحریک کا ڈھانچہ مسمار کیا جائے،جس سے ملک کی لاکھوں خواتین نے استفادہ کیا ہے۔
معروف کالم نگار ٹام فریڈمان نے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات پانچ سال کے وقفے کے بعد
دوبارہ شروع کرانے کو امریکی وزیر خارجہ جان کئیری کا ایک بڑا کار نامہ قرار دیا ہے۔
’ہیرلڈ ٹربیون‘ میں ایک کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ انہیں مسٹر کیری کی اُس استقامت کے لئے بڑا احترام ہے جس کی بدولت وہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن، وزیر خارجہ کی اس تعریف کے ساتھ ساتھ، فریڈمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی معاہدہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔